’’اِن جاہلوں کو اسلام آباد کون لے کر آیا ہے؟‘‘۔
یہ سوال ایک خاتون صحافی پوچھ رہی تھی جو غصے میں تھی۔ وہ مجھے فون پر شکایت کے انداز میں بتا رہی تھی کہ وہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی کوریج کے لئے پشاور موڑ گئی لیکن وہاں جلسہ گاہ کی انٹرینس پر موجود خاکی وردی میں ملبوس باریش نوجوانوں نے بڑے درشت انداز میں کہا کہ ’’زنانی اندر نہیں جا سکتا‘‘۔
خاتون صحافی نے کہا کہ میرے ساتھ جانے والے کیمرہ مین نے انہیں بتایا کہ یہ زنانی نہیں صحافی ہے جس پر ایک مولوی نے ڈنڈا لہرا کر کہا کہ بحث مت کرو یہاں سے غائب ہو جائو اور کیمرہ مین کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔
میں نے اپنی اس صحافی بہن کی شکایت سن کر کہا کہ آپ نیشنل پریس کلب یا راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے کسی عہدیدار کو بتائیں، میں بھی اُن سے رابطہ کرتا ہوں لیکن خاتون نے مزید غصے میں کہا آپ ہمارے اُستاد بھی ہیں، بڑے بھائی بھی ہیں، آپ آزادیٔ صحافت کے لئے ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں، آپ آزادی مارچ میں خواتین صحافیوں کے داخلے پر پابندی کے خلاف ابھی اسی وقت ٹویٹ کریں۔ میں نے اپنی اس بہن کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کہا کہ فکر نہ کرو ٹویٹ بھی کروں گا اور آزادی مارچ والوں کے خلاف مظاہرہ بھی کروں گا۔
یہ جمعہ کا دن تھا اور میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے کھدر کی شلوار قمیص پہن کر گھر سے روانہ ہو رہا تھا۔ خاتون صحافی کی شکایت سُن کر میں نے نیشنل پریس کلب کے ایک عہدیدار صغیر چوہدری کو فون کیا۔
وہ آزادی مارچ میں موجود تھے۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میں آپ کی طرف آ رہا ہوں۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو اُنہوں نے بھی تھوڑی دیر پہلے ایک خاتون اینکر کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔
میں نے جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ایک میسج بھجوایا کہ آپ کے لوگ خواتین صحافیوں کو جلسہ گاہ میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ مولانا نے فوری طور پر جواب میں کہا کہ ابھی یہ مسئلہ حل کرتے ہیں۔
چند منٹ کے اندر آزادی مارچ کے اسٹیج سے مولانا عبدالغفور حیدری نے اعلان کر دیا کہ یہاں خواتین کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں، خواتین کا احترام کیا جائے۔ پھر خاکی وردی میں ملبوس انصار الاسلام کے سالار آئے اُنہوں نے کہا کہ ہم معذرت خواہ ہیں آپ اسٹیج سے جا کر خود اعلان کر دیں۔ میں نے اسٹیج پر جا کر اعلان کر دیا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ہماری شکایت دور کر دی ہے، ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان کے میڈیا پر حکومت نے کئی پابندیاں لگا رکھی، ہیں امید ہے اپوزیشن ہم پر پابندیاں لگانے کے بجائے ہماری آواز بنے گی۔
تھوڑی دیر میں مولانا فضل الرحمٰن بھی تشریف لے آئے اور اُنہوں نے کئی خواتین صحافیوں کو کنٹینر پر بلا لیا تاکہ سب دیکھ لیں کہ خواتین پر کوئی پابندی نہیں۔
جس خاتون صحافی نے تھوڑی دیر پہلے مجھے غصے میں شکایت کی تھی وہ بھی جلسہ گاہ میں آ چکی تھی اور کنٹینر کے سامنے کھڑے ہاتھ ہلا کر شکریہ ادا کر رہی تھی۔ مولانا نے اپنی لچک اور فہم و فراست سے خود کو میڈیا کی تنقید سے بچا لیا ورنہ ہم صحافی اُن کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہوتے۔
نمازِ جمعہ کے بعد کنٹینر پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین اپنے سامنے موجود ایک بہت بڑے مجمعے کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے ایک رہنما نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’’مولانا کو اسلام آباد کون لایا ہے؟‘‘
میں نے سرگوشی میں جواب دیا۔ عمران خان لایا ہے۔ پھر اُس نے بےچینی کے ساتھ گھڑی کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’کیا شہباز شریف صاحب یہاں آئیں گے؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا فکر نہ کرو شہباز شریف کو عمران خان یہاں ضرور بھیجے گا۔
اُس نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا وزیراعظم عمران خان نے گلگت میں ساری کی ساری اپوزیشن کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی ہے جو لوگ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو مولانا سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے تھے وزیراعظم نے اُن کا کام مشکل کر دیا ہے آج یہاں شہباز بھی آئیں گے اور بلاول بھی رحیم یار خان کا جلسہ چھوڑ کر آئیں گے۔
تھوڑی دیر میں شہباز شریف پہنچ چکے تھے اور ان کے پیچھے پیچھے بلاول بھی آ گئے۔
آزادی مارچ کے کنٹینر پر نو جماعتوں کی قیادت اکٹھی ہو چکی تھی اور ان سب کو یہاں اکٹھا کرنے کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمٰن سے زیادہ عمران خان کو جا رہا تھا۔
گلگت میں عمران خان نے جو لب و لہجہ اختیار کیا اُس کا جواب مولانا فضل الرحمٰن نے اُسی انداز میں دیا اور اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے کر کہا کہ استعفیٰ دو ورنہ عوام تمہیں وزیراعظم ہائوس سے گرفتار کر لیں گے۔
حکومتی وزراء مولانا کے اس بیان کو بغاوت قرار دے رہے ہیں اور اُن کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات نے مولانا کے والد کے ساتھ ساتھ اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کے والد کو بھی غدار قرار دے دیا ہے۔ جواب میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ آپ لوگوں نے تو فاطمہ جناح کو بھی غدار کہا تھا لہٰذا غداری کا الزام اب گالی نہیں تمغہ بن چکا ہے۔
مولانا کو روکنے کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے لکھے گئے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے جا رہے ہیں۔ صدیقی صاحب کو فارغ کیا جا چکا ہے اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اسی حکومت کے اٹارنی جنرل نااہلی کے ریفرنس کا دفاع بھی کر رہے ہیں جبکہ حکومتی وزراء پریشان چہروں کے ساتھ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ایک وزیر صاحب کل رات کو کہہ رہے تھے کہ پرویز مشرف کے زوال کی اصل وجہ اُن کا غیر ضروری اعتماد اور رعونت تھی لیکن اُن کا زوال نو سال بعد شروع ہوا۔
عمران خان کی اکھڑ پن، ضد اور انا پسندی نے اُنہیں ایک سال میں وہاں پہنچا دیا جہاں مشرف نو سال بعد پہنچے تھے۔ میں نے وزیر صاحب سے کہا کہ لیکن اسی ضد اور انا پسندی کی وجہ سے عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے، وہ سعد الحریری نہیں بنیں گے۔ وزیر صاحب نے میری رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ آج پاکستان کی سیاست میں پیدا ہونے والی نفرت اور کشیدگی کا خاتمہ نہ عمران خان کے بس کی بات ہے نہ کسی ادارے کے بس کی بات ہے، جو بھی کرنا ہے اپوزیشن کو کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کیا مطلب؟
وزیر صاحب بولے مولانا فضل الرحمٰن اپنی جلسہ گاہ میں خواتین صحافیوں پر پابندی ختم نہ کراتے تو اُن کی غلطی ہماری کامیابی بن جاتی اگر ہم نے اپنا لب و لہجہ نہ بدلا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ بہتر ہے شہباز شریف اور بلاول مل کر قومی اسمبلی کے اندر سے تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔
میں نے کہا ’’سینیٹ میں عدمِ اعتماد کی تحریک کے بعد بھی؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ سب ادارے آئین کے اندر رہ کر کام کریں تو سیاسی تنازعات پارلیمنٹ کے اندر طے ہوں گے ورنہ ایک آزادی مارچ کے بعد دوسرا مارچ اور ایک مولانا کے بعد دوسرا مولانا اور ہم اس گرداب میں پھنسے رہیں گے۔