مکالمے کا فروغ وقت کی ضرورت

کوئی بھی معاشرہ تکثیریت سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ، خواہ وہ مذہبی تکثیریت ہو، لسانی تکثیریت ہویا قومیتی تکثیریت ہو۔ تکثیریت جہاں ایک رحمت بن سکتی ہے وہی پر زحمت بھی بن سکتی ہے اور دونوں کا دار و مدار بہتر انتظام پر ہے۔ اگر کثیرالمذہبی علاقے میں بات بات پر مناظرے ہوں ، بحث و مباحثے ہوں اور ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہو تو اس کے نتائج بھیانک ہی ہوسکتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر تمام مذاہب آپس میں بھائی چارگی کے ساتھ رہیں، معاشرتی مسائل پر گفت و شنید اور مکالمہ کریں تو ایسا علاقہ پوری دنیا کے لئے مثال بن سکتا ہے ۔ تکثیریت کے مکالمے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی اندھیر نگری نہ ہوجائے بالخصوص لسانی معاملات میں جہاں پر ’ بڑی زبان چھوٹی زبان کو کھاجاتی ہے‘۔

پاکستان کے شمالی علاقے بھی تکثیریت سے بھرپور ہیں جس میں سب سے زیادہ لسانی تکثیریت موجود ہیں مگر لسانی پہلوﺅں کو نظر انداز کئے جانے اور مکالمے کی ثقافت نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی زبانیں اپنے شناخت اور حیثیت سے بھی محروم ہیں۔ سوات میں متحرک ادارہ برائے تعلیم و ترقی نے اسی ضرورت کے پیش نظر اور لسانوں کے مابین تعلقات کو بڑھانے کے سلسلے میں خوبصورت ترین وادی کالام میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا ۔ اس سیمینار سے شمالی پاکستان کے کم از کم 30زبانوں کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں اکثریت ’داردک ‘زبانوں کی تھی جبکہ دیگر میں تبتی اور ایرانی زبانیں بھی شامل تھیں،گلگت سے اس مکالمے میں راقم کے علاوہ نامورشاعر و ادیب پروفیسر محمد امین ضیاءصاحب اور بلتستان سے شاعر و ادیب احسان علی دانش نے شرکت کی۔ اس سے قبل ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے زیر اہتمام گلگت ، بحرین ، چترال ، کوہستان میں مقامی زبانوں میں تکثیریت کے عنوان سے سیمینارز کا انعقاد کیا گیا تھا ، یوں ان مرحلہ وار سیمینارز یا ورکشاپس کا آخری سیشن وادی کالام میں منعقد کیا گیا۔

کالام کے خوبصورت وادی کے دامن میں منعقد ہونے والے ایک روزہ سیشن سے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹیڈیز کے چیئرمین محمد عامر رانا، باچا خان ٹرسٹ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر خادم حسین، سڈنی یونیورسٹی آسٹریلیا کے پروفیسر اور ماہر لسانیات ڈاکٹر عامر محبوب اور سینئر صحافی و کالم نگار سبوخ سید نے خطاب کیا ۔

PIPS کے چیئرمین محمد عامر رانا نے بتایا کہ انہوں نے اس سے قبل مکالمے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ادارے کے تحت اسلام آباد میں تمام مسالک کے علماءکرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مذہبی ہم آہنگی کا ایک سلسلہ شروع کیاہے دلچسپ طور پر نہ صرف مذہبی شخصیات اس میںشامل رہیں بلکہ سیکولر اور لبرل شخصیات بھی گفت و شنید کا حصہ رہیں، جہاں پر فتویٰ دینے کے متفقہ ادارے کی ضرورت، خواتین کے حقوق و وراثت جیسے حساس اور اہم موضوعات کو زیر بحث بناکر متفقہ اور مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ۔ محمد عامر رانا کے مطابق مکالمے میں سب سے مشکل ترین چیز ابتداءہے ، اگر دو نظریاتی مخالف فریقوں کے مابین بھی مکالمے کی ابتداءکی جائے تو اس کا راستہ بہت آسان ہوجاتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے بانیوں میں شامل ایس پی سنگھا کی مثال دی کہ جس کے ووٹ نے آج کے پنجاب کو پاکستان کے ساتھ ملانے میں کلیدی کردار ادا کیا، عامر رانا نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی معاملے پر بات سننے کی عادت ڈالنی چاہئے جس سے غلط فہمیاں ختم ہوجائیںگی۔اس وقت چند ایک کے علاوہ پاکستان میں تقریباًسبھی اقوام شناخت کے مسئلے سے دوچار ہیں۔

ڈاکٹر خادم حسین چیئرمین باچا خان ایجوکیشن ٹرسٹ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کھیل سے لیکر جمالیات اور ملکی نظام تک کو بھی جنگ کے مثالوں سے سمجھایا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے۔ امن پسند لوگ اسی وجہ سے دب جاتے ہیںاور دھیرے دھیرے وہ اپنی شناخت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ تکثیریت کے مکالمے کے فروغ میں ریاست کا بہت بڑا کردار ہے مگر بدقسمتی سے اب تک وہ ادا نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے ’جنگ دھندہ اور امن دھندا‘جاری ہے۔ عمرانی معاہدوں کے تحت چلنے والے معاملات میں ثواب اور گناہ نہیں بلکہ جزا اور سزا کا تصور ہوتا ہے ۔

جن قومیتوں کو لگ رہا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور وہ کسی بھی مکالمے میں شریک نہیں ہیں ان کو چاہئے کہ آپس میں متحد ہوجائیں اور سیاسی نظام ، سیاسی جماعتوں کو مضبوط کریں۔ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق شناخت سے محروم کرنا وسائل سے لاعلم کرنے کی ایک کڑی ہوتی ہے اور شناخت کا تعلق مقامی زبانوں اور ان میں پائے جانے والے استعارات اور متشابہات کے ساتھ ہے جن کے غائب ہوجانے سے مقامی طور پر پائے جانے والے پورے علم کی رخصتی ہوجاتی ہے ۔تفرقہ بازی بالخصوص مذہبی فسادات نے محرومیوں اور شناخت چھیننے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔پسے ہوئے اقوام میں مضبوط روابط ہونے چاہئے، ریاستی سطح پر کسی کو تسلیم نہ کرنا اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے محرومیاں جنم لیتی ہیںجس سے نمٹنے کے لئے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے ۔

سڈنی یونیورسٹی کے پروفیسر و ماہر لسانیت پروفیسر عامر محبوب نے لسانیات اور شناخت کے موضوع پر انتہائی سائنسی بنیادوں پر لیکچر دیا ۔ پروفیسر عامر محبوب کے مطابق انہوں نے 11 ویں جماعت تک تعلیم گلگت سے حاصل کی ہے۔ عامر محبوب کے مطابق ہم ظالم کے سامنے ویسے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے مظلوم ہمارے سامنے ہوتا ہے ۔ پوری دنیا میں ظالم اور مظلوم کا کھیل جاری ہے مگر نہ ظالم کی صاف شناخت ہوتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی شناخت صاف ہوتی ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے لیکر گریڈ1 کے چپڑاسی تک سبھی کے زہن میں یہی نظام ہے جس کی ابتداءکالونیل ادوار میں شروع کی گئی تھی، اس کا حل یہ ہے کہ ظلم کی اس زنجیر کو وہاں سے توڑ دے جہاں آپ کو چھوجاتی ہے اور اس کو مزید منتقل ہونے نہ دیں۔

لسانیات کے پروفیسر کے مطابق موجودہ تعلیمی نظام کا بھی محرومیوں کے فروغ میں بڑا کردار ہے جس نے لوگوں میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا کی ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو چھین لیا ہے، یہ سارا اقوام متحدہ کے شرح تعلیم میں اضافے کا چکر ہے۔ پروفیسر عامر محبوب نے اپنے موضوع پر انتہائی تنقیدی پہلوﺅں سے جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ مقامی زبانوں کے تحفظ کا صرف اور صرف واحد راستہ بطور وراثت ترسیل و انتقال ہے ، دیگر زبانوں کو لاگو کرکے ہر آنے والی نسل کو پچھلی نسل سے الگ اور مختلف کردیا گیا ہے ۔ پروفیسر عامر محبوب نے زور دیا کہ مقامی زبانوں میں معیشت کو قائم کیا جائے تاکہ نہ صرف لوگوں کی مجبوری بن جائے بلکہ معاشی طبقات بھی کم ہوسکےں۔

سینئر صحافی اور کالم نگار سبوخ سید نے کہا کہ آج کے دور میں ہمیں معاشرے میں اس موضوع کی انتہائی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے بدقسمتی سے تکثیریت کے بہتری اور مکالمے کے فروغ میں میڈیا کا کوئی کردار نہیں ہے ، ہم نے میڈیا میں مکالمے کے سبھی دروازے بند کردئے ہیں۔معاشرے میں ہمیں برداشت سے زیادہ قبول کرنے کے کلچر کو پروان چڑھانا ہوگا ۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی بھرپور آزادی میسر ہے مگر فکر کی آزادی ہم سے دور ہورہی ہے ۔ سوشل میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں نے اب تک متعدد لوگوں کو قیمتی جانوں سے محروم کردیا ہے لہٰذا جب تک مکمل تصدیق نہ ہوں کوئی بھی مواد نہ پھیلایا جائے۔ انہوں نے مناظرے کے کلچر کی حوصلہ شکنی اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی کے بارے میں تب تک کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے جب تک اسکو اس کے الفاظ میں سن نہ لیں اور سمجھ نہ لیں۔

ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے ہیڈزبیرتوروالی نے اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد اور اہداف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مستقبل قریب میں ریسرچ ریسورس سنٹر کا قیام ، دو زبانوں پر مشتمل ریسرچ جرنل بنایا جائے گا جس کے زریعے پہاڑوں پر بسنے والی ان زبانوں پر کوفروغ ملے گا۔ ا ب ت کی جانب سے بنائے گئے ویب سائٹ وی ماﺅنٹنین کو ماحولیات میں متعدد مرتبہ بطور ریفرنس استعمال کیا گیا ہے جو کم وقت میں بڑی کامیابی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے