کشمیریوں کی کسمپرسی میں کرتارپور راہداری کا افتتاح

کرتارپور راہداری کی تعمیر اور اس کا بھارت کی سکھ برادری کے لئے کھولنا ایک بہت بڑا فیصلہ ہے۔تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل۔اس کالم میں اس کی بابت اگرچہ میں نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔’’خوف فسادِ خلق‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’حساس‘‘ سوالات اٹھانے سے گریز والی ’’احتیاط‘‘۔ اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے مگر شیخی بگھارنے کو مجبور ہوں کہ کرتارپور کی اہمیت کو بطور صحافی اجاگر کرنے میں مجھ دو ٹکے کے رپورٹر نے بھی کچھ حصہ ڈالا ہے۔

24/7چینل دیکھنے والے دانیال عزیز کے نام اور چہرے سے کافی آشانا ہیں۔موصوف کے ساتھ میرا ہمیشہ سیاسی اختلاف رہا۔ ہم دونوں کے مابین گرما گرم مباحثے ہوتے ہیں۔وہ مگر چھوٹے بھائی کی مانند ہیں۔ چودھری انور عزیز کے فرزند ہیں اور بے تحاشہ حوالوں سے چودھری صاحب میرے اور میری بیوی کے لئے عزیز ترین ہیں۔ہمارے خاندان کے بڑے ہیں۔ربّ کریم انہیں طویل عمر عطافرمائے اور ان کی شفقت ہمیں میسر رہے۔چودھری صاحب کو اپنے شکر گڑھ سے عشق ہے۔ 1990کی دہائی سے میرا صحافتی وجوہات کی بنا پر بھارت جانا تقریباََ معمول ہوگیا تو چودھری صاحب نے کرتارپور کا ذکر شروع کردیا۔ محض مجھے ہی نہیں میری بیوی اور بچیوں کو 2001میں اس مقام پر بہت چائو سے لے گئے۔

ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ راوی کے اس پار بسے بھارتی سکھوں کو اس مقام تک بآسانی رسائی کی راہ نکل آئے۔جنرل مشرف کو بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے جب آگرہ سمٹ کی دعوت دی تو اس سمٹ کی تیاری اور ممکنہ اہداف کی تلاش کے لئے مجھے کئی مہینوں تک بھارت میں رہنا پڑا۔ وہاں قیام کے دوران مجھے اندازا ہوا کہ نام نہاد عالمی برادری کی جانب سے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے باہمی تعلقات میں بہتری لائیں۔اپنے شہریوں کے لئے پاکستان یا بھارت کے سفر میں ویزا Regimeمیں بہتری لائیں۔People to People Contactکا ورد اسی باعث شروع ہوا تھا۔بطور پاکستانی میرا ہمیشہ یہ اصرار رہا کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر باہمی تعلقات میں بہتری لانا ناممکن ہے۔بھارت کے پالیسی سازوں کو بھی اس حقیقت کا بخوبی احساس تھا۔ آن دی ریکارڈ مگر اس موضوع پر کچھ Commitکرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔

People to People Contact کے ورد نے جنرل مشرف کے دور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے لئے ’’پنجاب- پنجاب‘‘ تعلقات کو بھی بہتر بنانے کے امکانات پیدا کئے۔ان دنوں بھی مہارجہ پٹیالہ کا وارث کیپٹن امریندرسنگھ بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہوا کرتا تھا۔اس کی جنرل پرویز مشرف سے ایک طویل ملاقات ہوگئی۔اس ملاقات کی بدولت ’’پنجاب-پنجاب‘‘ رشتوں کی ’’دریافت‘‘ آسان ہوگئی۔ 2004میں لیکن میں نے محسوس کیا کہ دلی میں بیٹھی افسر شاہی اس کے بارے قطعاََ خوش نہیں ہے۔بالآخر بھارت کے پاکستان میں متعین ایک سفیرجو بعدازاں من موہن سنگھ کے مشیر برائے قومی سلامتی بھی تعینات ہوئے اسلا م آباد کی ایک تقریب میں مجھے ایک کونے میں لے گئے۔ مجھے سفارتی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی کہ دہلی میں Deep State ’’پنجاب-پنجاب‘‘ Hypeکو ناپسند کرتی ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو اس کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ان تحفظات کا ذکر ایک نجی ملاقات میں جنرل مشرف کے مشیر برائے قومی سلامتی جناب طارق عزیز صاحب سے میں نے تفصیلاََ کردیا۔

ان سے یہ درخواست بھی کی کہ بھارتی سکھوں کو پاکستان میں ان کے مقدس مقامات تک رسائی میں آسانیاں پیدا کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو ’’کشمیر-کشمیر‘‘ راہداری کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔انہوں نے فقط یہ کہتے ہوئے مجھے خاموش کردیا کہ ’’اس ضمن میں بھی کام‘‘ہورہا ہے۔بعدازاں ان دنوں کے وزیر خارجہ خورشید قصوری صاحب نے بھی مہربانی فرماتے ہوئے اس ضمن میں چند ’’آف دی ریکارڈ‘‘ تفصیلات بیان کردیں اور چند ہفتوں کے بعد آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان تھوڑی تجارت بھی شروع ہوگئی۔سری نگر میں ’’کشمیر کی منڈی-راولپنڈی‘‘ کا نعرہ بہت مقبولیت اختیار کرنا شروع ہوگیا۔جنرل مشرف کے دورِ حکومت کے آخری ا یام میں پاکستان اور بھارت کے مابین جو بیک ڈور مذاکرات ہورہے تھے ان کے دوران اس معاملہ پر تقریباََ اتفاقِ رائے ہوچکا تھا کہ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لئے پاسپورٹ کے بجائے اس ’’رہائشی پرمٹ‘‘ کو کافی تصور کیا جائے جو مہاراجہ کے دنوں میں ریاستی شہریوں کیلئے جاری ہوتا تھا۔

کشمیریوں کیلئے ایسی آسانیوں کے بدلے کرتارپورراہداری کا کھولنا ایک معقول Swap نظر آتا۔حالات مگر اب قطعاََ بدل چکے ہیں۔ مودی سرکار نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو 5اگست 2019کے دن ختم کردیا۔اس مہینے کی پہلی تاریخ سے مقبوضہ کشمیر کی ’’خصوصی حیثیت‘‘ ختم کردی گئی ہے۔ اسے جموںوکشمیر اور لداخ کے دو ’’صوبوں‘‘ میں بانٹ کر فی الوقت ان دونوں صوبوں کو بھارتی ریاست کی Union Territoryبنادیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے باسی اگر اب آزادکشمیر آنا چاہیں گے تو انہیں ’’بھارتی پاسپورٹ‘‘ پر سفر کرنا ہوگا۔ ’’رہائشی پرمٹ‘‘ قصہ پارینہ ہوا۔آرٹیکل 370کی تنسیخ نے مقبوضہ کشمیر کی تاریخی حیثیت ختم کردی ہے۔کشمیریوں سے ان کی جداگانہ شناخت چھین لینے کے باوجود 5اگست 2019سے 80لاکھ انسانوں کو آج کے دور میں بھی انٹرنیٹ تک رسائی میسر نہیں۔موبائل فونز کا استعمال بھی ’’پوسٹ پیڈ‘‘ کنکشن تک محدود ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت بھی جیلوں میں ہے۔وہاں کی سول سوسائٹی کے سرکردہ ا فراد کو گھروں سے اٹھاکر راجستھان اور دہلی کی جیلوں میں بند کردیا گیا ہے۔کئی مہینوں سے مقبوضہ کشمیر دُنیا کی وسیع ترین جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔پاکستان 80لاکھ کشمیریوں پر5اگست 2019سے نازل ہوئی اذیتوں کے ازالے کیلئے کماحقہ اقدامات نہیں لے پایا۔

اس تناظر میں کرتارپور راہداری کا افتتاح مجھے خوش کرنے کے بجائے پریشان کئے ہوئے ہیں۔مجھے شدید خدشہ لاحق ہے کہ 80لاکھ کشمیریوں کی بے پناہ اکثریت بھی خود پر نازل ہوئی آفت کی اس گھڑی میں بھارتی سکھوں کو میسر ہوئی سہولتوں کے بارے میں کافی Bitter محسوس کررہی ہوگی۔مناسب ہوتا اگرکرتارپور راہداری کھولنے کے عوض ہم عالمی برادری اور خاص کر حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان کے ’’دوست‘‘ ہوئے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے ذریعے 80لاکھ کشمیریوں کو کم از کم موبائل فونز اور انٹرنیٹ تک رسائی ہی دلواپاتے۔ موجودہ حالات میں یہ راہداری پاکستان کی جانب سے برتی یک طرفہ خیرسگالی ہے۔

مودی سرکار مگر اس خیر سگالی کا بھی کھلے دل سے خیرمقدم نہیں کررہی۔دلی کی Deep Stateبلکہ اس راہداری کی بابت بہت منظم انداز میں بدگمانیاں پھیلانا شروع ہوگئی ہے۔ان بدگمانیوں کے فروغ سے گھبراکر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندرسنگھ اپنی ’’حب الوطنی‘‘ ثابت کرنے کے لئے تندوتیز بیانات دینے کو مجبور ہورہا ہے۔تاریخی حقیقت اگرچہ یہ ہے کہ کرتارپورسیلاب کی وجہ سے 1930کی دہائی میں ’’دریابرد‘‘ ہوگیا تھا۔برسوں بعد جب راوی نے اپنی راہ بدلی تو یہ نمودار ہوا۔ اس کے احیاء اور تعمیر کے لئے تمام تر رقم امریندرسنگھ کے دادا اور والد نے ریاستِ پٹیالہ کے خزانے سے مختص کی تھی۔ کرتارپور راہدری کا افتتاح ذاتی حوالوں سے اس کے لئے اہم ترین جذباتی دن ہوتا۔ بھارت ان دنوں مگر ہندوانتہاپسندی کی شدید زد میں ہے۔کرتارپورراہداری کا افتتاح وہ Feel Good ماحول نہیں بناپائے گا جس کی ہم توقع باندھے ہوئے ہیں۔یہ لکھنے کے بعد بھی اگرچہ ہاتھ اُٹھاکر ربّ کریم سے فریاد کرنے کو مجبور ہوں کہ میرے اس ضمن میں خدشات بالآخر غلط ثابت ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے