استادِ محترم!

میں اب اپنی طرف سے کچھ نہیں کہوں گا، بس’’استادِ گرامی‘‘ میں سے پچیس تیس سطریں آپ کو سنا دیتا ہوں، باقی کتاب کا معیار بھی کم و بیش اتنا ہی ہے۔ اب آپ شاہد ظہیر صاحب کی زبانی ’’استادِ گرامی‘‘ کا احوال سنیں،

مزنگ کی ایک تنگ اور نیم تاریک گلی میں سیڑھیاں چڑھ کر دروازہ کھلا۔ یہ منظر کسی پرانے اور دکھی قسم کے افسانے کا لگتا ہے۔ اس لئے میں کتنے ہی روز کوئی بہتر منظر ڈھونڈتا رہا کہ میں نے جب تک دیکھا اور جتنا دیکھا انہیں کبھی دکھی یا مایوس نہیں دیکھا مگر حافظے پر پڑنے والی ہر فلیش لائٹ سے یہی منظر نظر آیا۔ اس لئے اسی منظر سے ابتداء کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، کچھ روشن کھڑکیاں کھلیں گی تو آپ استادِ گرامی کی باغ و بہار شخصیت کی خوشبو محسوس کریں گے۔

سامنے لمبے قد کے ایک شخص دھوتی اور بنیان پہنے، جسے ملبوس نہیں کہہ سکتے کہ لغت میں لفظ ’’ملبوس‘‘ کے جو معنی لکھے ہیں، تنگ دامن بنیان ان معنے پر پوری نہیں اترتی تھی اور دھوتی اس مقصد میں قطعی ناکام و نامراد تھی جس کے لئے باندھی گئی تھی۔ لکڑی کے صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اور ایک بڑے برتن میں برتن سے بھی بڑے سائز کا تربوز رکھے بغیر کسی دیگر محتاجی کے نوش جاں فرمارہے تھے۔ تربوز چاہ عمیق تھا کہ ہر نوالے سے قبل ڈبکی لگا کر گوہر مراد تلاش کرنا پڑتا۔ ان کا دایاں ہاتھ گوہر مراد کی تلاش میں مصروف تھا۔ اس لئے ہم لوگ ہاتھ ملائے بغیر ہی بالمقابل صوفے پر بیٹھ گئے پھر انہوں نے ’’جامِ جم‘‘ کو منہ لگا کر شربتِ تربوز نوش فرمایا اور گویا ہوئے ’’شاہ صاحب یہ تربوز جنت کا پھل ہے‘‘۔

’’لیکن اس کا ذکر تو کہیں نہیں ملتا‘‘۔ برادر بزرگ نے بھی دین سے محبت کا اظہار فرمایا۔

’’ملتا ہے ناجی، وہ جو جنت میں انگور ہوں گے وہ تربوز کے سائز کے ہوئے تو پھر تربوز ہی کہلائیں گے نا! ایک دن ہمارے مولانا گارنٹی دے رہے تھے کہ جنت میں پیش کئے جانے والے انگور تربوز کے سائز کے ہوں گے‘‘۔ اتنی دیر میں ایک خوش شکل و خوش لباس جو دیکھنے میں نوکر وغیرہ نہیں لگتا تھا اتنے ہی بڑے دو تربوز لے آیا اور ہم دونوں یعنی بندہ مشتاق دیدار شیخ و وسیلہ دربار شیخ برادر بزرگ علی اکبر شاہ، ہر دو کے سامنے ایک ایک رکھ دیا۔ شاہ صاحب شروع ہو جائیے۔ انہوں نے دھوتی کا ایک سرا جسے کتنا بھی مہذب بنالیں پلو نہیں کہہ سکتے، وہاں سے اٹھا کر منہ صاف کیا، جہاں سے ’’پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا‘‘ کی وارننگ دی جاتی ہے۔ بچائو کے جبلی تقاضے کے تحت کسی ناخوشگوار منظر سے بچنے کے لئے جدھر جگہ ملی، ادھر منہ پھیرا تو دیکھا کہ برادر بزرگ کی خشمگیں نگاہیں بھی ادھر ہی پناہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ دل کے سنگھاسن پر سجایا وہ بت گر کر پاش پاش ہوگیا جسے برادر بزرگ نے کئی روز تک تراش تراش کر میرے من مندر میں سجایا تھا۔ دوسری مشکل یہ درپیش تھی کہ ہم بےخنجر و تلوار، اس تربوزی جنگ میں کیسے کود پڑیں؟ انہوں نے ایک تربوز اٹھا کر اپنے سامنے رکھا، اس پر کہنی کو ٹکایا اور بولے۔

’’اسے کہنی سے توڑتے ہیں، یہی تربوز توڑنے کا صحیح طریقہ ہے، یہ چھری سے کاٹنا، چھلکے اتارنا تربوز کی شان میں گستاخی کے برابر ہے۔ پھلوں کا بادشاہ تو تربوز ہے، یہ آم والی بات تو عوام میں پھیلا دی گئی ہے۔ ادھر لاہور میں خالص تربوز نہیں ملتے یہ اپنے کھیتوں کے ہیں چلیں آپ گھر جا کر کھا لیجئے گا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے