کہتا ہوں سچ

سال کے سال پاکستان کے چکر لگا کر اور پندرہ برس کے وقفے کے بعد ہندوستان کا دورہ کر کے واپس آیا تو ایک بڑا سوال، بہت بڑ ا سوال شاید پہلے سے میرا منتظر کھڑا تھا۔ کیا فرق محسوس ہوا؟

سچ کہہ دوں؟ بالکل یوں لگا جیسے ایک ڈولتی کشتی سے بڑا سا ڈگ بھر کر ایک ٹھہری ہوئی، جم کر کھڑی ہوئی ناؤ میں قدم رکھ دیا۔ صدیوں کی محکومی کے بعد اُنہوں نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ رہ گئے ہم تو ہمارے ہاں دودھ دیتی ہوئی گائے گھومتی گھامتی ہمارے محلے میں نکل آئی ہے اور اسے جس طرح نچوڑا جارہا ہے، وہ بھی اپنے مقدر کو کیا کہتی ہوگی۔ بالکل یوں محسوس ہوتا ہے پاکستانی سیاستداں اپنے ملک کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ یہ لوگ نہ ملک کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں نہ وطن کو۔ انہیں تو ان دو کا فرق بھی نہیں معلوم۔ کسی ٹاک شو میں ان سے کوئی گمبھیر سوال کرکے دیکھئے، کیسی کیسی قلابازیاں کھاتے ہیں اور کس عیاری سے اصل موضوع ٹال جاتے ہیں۔ سب کچھ کرتے ہیں، پاکستان کو ownنہیں کرتے۔

سرحد پار جو کچھ بھی ہے اور جیسا بھی ہے، انہوں نے اپنی سرزمین میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے ہیں، اب اگر وہ کوئی حماقت کرتے ہیں یا ان سے کوئی بھول ہوتی ہے تو ان کا استحکام اس کو اپنے اندر جذب کرلے گا۔ مثال کے طور پر اچھا بھلا سیکولر نظام چلاتے چلاتے ان پر دھرم کا جنون سوار ہوگیا ہے۔ پاکستان کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔ وہاں ماتھے پر بندی نہیں تو وہ نشان ضرور ہے جو انہیں یقین ہے ایک روز چمکے گا۔ سب کچھ ہو رہا ہے، وہ سینے میں دھڑکنے والی شے کسی حال ملائم نہیں ہوتی۔ درد مندی، دکھوں میں ساجھے داری، بڑھ کر تھام لینے والے انسانی مراسم اوجھل ہوئے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی بھی قضیہ ہو، ایک گروہ حق کی بات کہنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

انہوں نے کشمیر اور کشمیریوں کا جو حال کیا ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اپنے تین ہفتے کے قیام میں کہیں بھی میں نے کشمیر کا ذکر تک نہیں سُنا۔ کسی کی زبانی ہندوستان پاکستان کی کشا کش یا محاذ آرائی کی کسی کو خبر تک نہیں تھی۔ اس کمال سے میڈیا کو دبوچ رکھا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے خبر رسانی کے پیشے کو سانپ سونگھ گیا ہے لیکن اس سنّاٹے میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی حق کی آواز ضرور بلند کررہا ہوگا۔ اور اگر آج نہیں کرے گا تو پردہ اٹھنے پر دیکھئے گا کیسا نعرہ لگے گا۔ پارلیمان کے اندر اور باہر خاموشی نہیں رہے گی۔

ہندوستان کو بس ایک ہی دشواری درپیش ہے، وہ نہ ہوتی تو آسمان کو چھو رہا ہوتا، اور وہ ہے بڑھتی ہوئی آبادی کا سنگین مسئلہ۔ ہر طرف انسان ہی انسان ہے۔ راستہ چلنا مشکل ہے اور کبھی کبھی تو سانس لینا بھی دشوار ہے لیکن اس میں ان کی جیت بھی ہے۔ ان کے ملک کو ایک ارب بیس کروڑ گاہکوں کی منڈی مانا جا رہا ہے جہاں یہ بڑی طاقتیں اپنا مال بیچنے کے لئے چاپلوسی بھی کر لیتی ہیں۔ یہ بات اب پرانی ہو چلی کہ غریب اور غریب ہوگیا ہے، ہاں اس میں شک نہیں کہ مال دار اور دولت مند ہوگیا ہے۔ دولت کہیں نہ کہیں چھن کر نیچے تک پہنچ رہی ہے۔ وہ جو ایک زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا کہ کراچی میں محنت مشقت کرنے والے دوپہر کے کھانے میں بریانی کھاتے ہیں، وہ تو شاید اب بھی کھاتے ہیں لیکن ہندوستان کے بازاروں میں بھی بریانی کی دیگ کو خالی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ کہیں کہیں ڈنڈی مار جاتے ہیں، نہ ماریں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ سادہ زندگی گزارتے ہیں، سادگی ان کی زندگی کا بڑ ا آدرش بنی ہوئی ہے سو اس میں بھی ان کی جیت ہے۔ ذات پات ان کے نظام کی سب سے بڑی لعنت ہے، اس معاملے میں بڑے ہی کٹھور ہیں۔

اوپر سے ایسے آثار نہیں کہ سُدھر جائیں گے، پھر بھی مقابلے کے امتحانوں میں تعصب برتے جانے کا امکان نہیں، کچھ کوٹے کا نظام بھی قائم ہے۔ پاکستان میں ہم لفظ میرٹ میرٹ سن کر تنگ آچکے ہیں، ہندوستان میں جب سے مذہب پرستوں کا پلہ بھاری ہوا ہے، ملازمتوں میں اور تو اور مشین کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے نظام کے بعد کرپشن اور دھوکا دہی جیسے الفاظ سننے میں آرہے ہیں۔ لوگ بڑے وثوق سے کہہ رہے تھے کہ مشینیں آجانے کے بعد ووٹنگ میں دھاندلی ہونے لگی ہے۔ اس کا مشاہدہ کرنا میرے لئے ممکن نہ تھا اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بعض ریاستیں بڑی ہی دلیری سے اپنا ووٹ ڈالتی ہیں اور اپنا نظام اپنی مرضی سے چلاتی ہیں، یہی جمہوریت کا وہ حسن ہے جس کی پاکستان میں ہر لمحہ بات ہوتی ہے لیکن اس حسن کے غازے کی موٹی تہ کے نیچے کچھ خیانت کا داغ چھپا ہوا ضرور ہے۔

مشہور جریدے ’دی اکنامسٹ‘ نے حال ہی میں ہندو عقیدے کے بارے میں لکھا ہے کہ عجب دیوانے لوگ ہیں، گائے کے پیشاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں کینسر یا سرطان کی دوا کی تاثیر ہے اور یہ کہ اس میں سونا بھی ہوتا ہے، جریدے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ گائے کے پیشاب سے مشروبات بنائے جانے کا پورا پورا امکان ہے۔ مزید یہ کہ گائے کے گوبر سے آرائشِ حسن یعنی میک اپ کا سامان پہلے ہی بازاروں میں آچکا ہے۔

سب صحیح ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریباً اکہتّر ہندوستانی روپے کا ایک ڈالر ہے اور سرحد کے اِدھر ایک سو چھپن پاکستانی روپے دیجئے تو ایک ڈالر ملتا ہے۔ وہ دن قدیم نہیں ہوئے جب جنرل مشرف کے دور میں وقت نے کتنے ہی پہلو بدلے، پاکستانی روپیہ ساٹھ کے ہندسے پر ڈٹ کر کھڑا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل صاحب پر آج تک کچرا پھینکا جارہا ہے۔ ڈرتا ہوں میرا ملک کہیں کچرے کے نیچے دب نہ جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے