این آراو نہیں لوں گا

جب سے نواز شریف کے باہر جانے کا فیصلہ ہوا ہے ن لیگ والے ملتے ساتھ ہی یہی کہتے ہیں کہ خان صاحب تو کہتے تھے این آر او نہیں دوں گا اگر ان سے کہا جائے کہ اچھا اس کا مطلب ہے کہ نواز شریف این آر او لے کر جا رہے ہیں تو کہتے ہیں نہیں نہیں انکی صحت خراب ہے اس لیے علاج کے لیے جا رہے ہیں تو پھر اگر یہ دلیل دی جائے کہ وزیر اعظم نے بھی تو علاج کے لیے جانے کی اجازت دی ہے یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ این اآر او نہیں دوں گا تو جواب ملتا ہے آئیں بائیں شائیں میں ملتا ہے۔

ن لیگ کو ایک تو وہ سپورٹ کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے ہیں اور میاں صاحب بھاگیں یا یہاں رہیں انکو کوئی مسئلہ نہیں ایک قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو نواز شریف کے اس وقت سے ساتھ ہیں جب سے نواز شریف کا ایک بیانیہ سامنے آیا تھا یہ لوگ پڑھے لکھے بھی ہیں اور کچھ رائیٹ ونگ کی سیاست کرتے ہیں اور کچھ لیفٹ ونگ کے سپورٹرز ہیں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ کچھ ہوجائے نواز شریف کو بیرون ملک نہیں جانا چاہئیے جب سے نواز شریف کے بیرون ملک جانے کی خبر سامنے آئی یہ لوگ سخت مایوس ہیں اور کچھ تو شدید الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں کیونکہ جس بیانیہ کے ساتھ یہ لوگ کھڑے تھے اب وہ ختم ہوتا محسوس ہو رہا ہے تو ان لوگوں کی مایوسی جائز اور اصولی ہے۔

مگر وہ ووٹرز جو برسوں سے میاں صاحب کے ساتھ ہیں ون میں بھی کچھ ایسے ہیں جو شہباز سے زیادہ میاں صاحب کوپسند کرتے ہیں انکے بیانیہ کو بھی ٹھیک سمجھتے ہیں انھیں بہادر بھی سمجھتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے وہ لیڈرشپ کی ہر پالیسی چاہے وہ انکی اپنی ہی سابق پالیسی سے تصادم رکھتی ہو پر بھی لبیک کہتے ہیں وہ نہیں سوچتے کہ کل تک یہ کیا کہہ رہے تھے مگر اب کیا کہہ رہے ہیں مثال کے طور پر نواز شریف کہتے تھے وہ چاہے کچھ بھی ہوجائے پاکستان میں ہی رہیں گے علاج کے لیے بھی بیرون ملک نہیں جائیں گے بلکہ وہ اکبر الہ آبادی کا شعر پڑھتے تھے کہ اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا۔۔۔مگر آج ان کی بہاردی پر ایمان رکھنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ باہر کیوں جا رہے ہیں وہ کہتے تھے کہ خلائی مخلوق سے میری جنگ ہے مگر آج انکی اپنی جماعت کے ایک رہنما جب کہتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے کچھ لوگوں نے کردار ادا کیا نواز شریف کے باہرجانے میں۔۔۔

وہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیا اب خلائی مخلوق حق اور سچ پر آگئی ہے وہ کہتے تھے انکی بیٹی کہتی تھی کہ نواز اور شہباز کی سیاست میں فرق ہے اختلاف ہے اور اکثر اوقات وہ شہباز کو ڈانٹ بھی دیتے ہیں مگر آج خود شہباز کی بہو انکو گیم چینجر ثابت کر دیا تو کیا شہباز کی حکمت عملی والی سیاست کو نواز شریف بھی مان چکے ہیں اگر ہاں تو کیا وہ اپنے بیانیہ سے ہٹ چکے اگر نہیں تو شہباز کی سیاست اور چال کے پیچھے کیوں لگ گئے اگر ہاں تو اسکا مطلب تو یہ بھی ہے کہ ایک گڈ کوپ تھا دوسرا بیڈ کوپ تھا تو پھر اصول نظریہ بیانیہ یہ کس چیز کا نام ہے یہ سب کیوں نہیں سوچتے کیوں ردعمل نہیں دیتے بلکہ انکے ہر غلط اور ٹھیک اقدام کو جائز سمجھتے ہوئے اسکا دفاع کرنے میں لگ جاتے ہیں تو ایسی سوچ کو پٹواری سوچ نہ کہیں تو کیا کہیں ؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے