کشمیریوں کو کس نےدھوکادیا؟

کچھ سمجھ نہیں آرہی کیا لکھوں ؟لفاظی سے اب دل اکتا سا گیا ہے اپنے قارئین سے بصد احترام التجا ہے کہ سچ لکھنے کی ہمت نہیں اور جھوٹ کی آمیز ش سے دل بہلانے کا وقت گزر گیا ہم نے جب سے شعور سنبھالا تھا ہر طرف کشمیر کے تذکرے سنے تھے ہر دل اور ہر زبان پر کشمیری کی آزادی کی تمنا اور دعائیں اور قربانیوں کے تذکرے سنے تھے کبھی سوچا نہیں تھا کہ یوں ایک دن ایسے بھی ہو سکتا کہ اس کشمیر کی حیثیت کو ایک دم سے بدل کے رکھ دیا جائے گا اور پھر پوری دنیا میں ہُو کا عالم ہو جائے گا سب کو چپ لگ جائے گی اس ملک کا وزیر اعظم بے بسی کے عالم میں اپوزیشن سے سوال کرے گا کہ کیا میں جنگ کر وں ؟ خود کو ٹیپو سلطان کہہ کر اس کی روح کو شرمندہ کرنے والے جن کے اباء کی تاریخ میں ستر ہزار کا سرنڈر لکھا ہے وہ ٹویٹ کے محاذ پر اس قوم کو بہلائیں گے خود کو سفیر کہنے والے بزدل کسی ایک ملک کا دورہ تک نہیں کر پائیں گے ۔کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر لیں اور تیس سال سے قربانیاں دینے والی میری کشمیری ماوں بہنوں بیٹیوں بھائیوں اور بزرگوں کو تصور میں لائیے ۔۔

میں پورے یقین سے کہہ رہی کہ اگر آپ نے کسی ایک فرد یا گھرانے کی قربانیوں کو دل سے تصور میں لایا تو آپ کے حلق سے نوالہ نہیں اترے گا ۔تیس سال سے جن کے پاس بیٹوں کی لاشیں ہیں جن کی ردائیں لٹ چکی جن کےگھر بار لٹ چکے جن کے کاروبار تباہ ہو گئے جن کی تین نسلیں پاکستان پاکستان کرتے کرتے کٹ مری ہیں دل کرتا اس مضمون کی ہر لائن میں لکھوں کہ ہم شرمندہ ہیں مجھے ویسے تو ہمارے معاشرے اپنی نام نہاد اسلام پسندی اپنی نام نہاد مملکت اور ریاست کے روئیے سے شرمندگی تھی ہی مگر نام نہاد امت مسلمہ کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی بے حسی اور مجرمانہ طرز عمل نے دل میں ایک نفرت سی پیدا کر دی ہے اور سب سے زیادہ دکھ اس دن تھا جس دن عمران احمد نیازی صاحب نے قوم سے کشمیریوں کے لئے بارہ بجے سے بارہ تیس تک یک جہتی کریں دفاتر اور گھروں سے نکل کر باہر آئیں میں اسلام آباد میں ہی تھی تو اپنے ضمیر کے مطابق عین وقت پر ڈی چوک پہنچی اور اس قوم کی یکجہتی کا نظارہ کرنے لگا ہر گزرتا لمحہ دل میں درد کو بڑھاتا گیا میں اس چوک میں موجود لوگوں کی غیر سنجیدگی اور لچر پن کو دیکھ رہی تھی کہ کیا یہ لوگ کشمیریوں کے دکھ میں یہاں آئے ہیں کسی کے چہرے پر مجھے ایسا کوئی تاثر نہیں نظر آیا کچھ دیر کے لئے جمع ہونے والوں نے سیلفیوں اور غل غپاڑے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔

اس قوم کو عجیب عادت ہو گئی کہ یہ سوشل میڈیا اور گانوں سے فتوحات چاہتی ہے جبکہ دنیا کی تاریخ میں ایسی کسی قوم کی مثال نہیں ملتی جس نے گانوں سے ملک فتح کئے ہوں مگر یہاں وزیر اعظم بھی اپنے ساتھ گانے گانے والوں کو ساتھ لے جا کرمودی کو نکل جا کا پیغام دیتا ہے ۔

سفارتکاری پر معمور گدی نشین کی ڈرامہ بازیاں او ر قوم سے بولے گئے جھوٹ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ آشکار ہو تے رہے ہیں تازہ مثال اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد نہ لا پانے کی خفت ہے اس کمیشن کے اراکین کی تعداد سینتالیس ہے اور ہمیں قرارداد لانے کے لئے سولہ اراکین کی حمایت درکار تھی جن میں سے پندرہ او آئی سی کے ممبران تھے مگر ان اسلامی ممالک کے نمائندوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی ۔جس وجہ سے یہ قرارد اد نہیں لا سکے کچھ عرصہ قبل ایک خصوصی جہاز میں دو اسلامی ممالک کے دو وزرائے خارجہ پاکستان تشریف لائے یہاں حسب سابق بغلیں بجائی گئیں کہ شائد کوئی بڑی امداد آگئی ہے مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ان صاحبان نے دو پیغامات دِیئے ایک یہ کہ کشمیر امت مسلمہ کا مسئلہ نہیں اسے امت کا مسئلہ نہ بنایا جائے حیرت سے نبی پاک کی سرزمین نے نام نہاد خادمین اس نبی کی تعلیمات جس میں وہ فرماتے ہیں کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی درد میں رہتا ہے ۔ان تعلیمات کے برعکس اپنے مفادات کے یہ اسیر ہمیں یہ درس دینے آئے تھے کہ کشمیر امت کا مسئلہ نہیں دوسرا پیغام یہ تھا کہ بھارت نے جو کچھ کر لیا اس کو تسلیم کر کے حالات کی شدت کو کم کیا جائے کیوں کہ یہ اسلام پسند اسی کشمیر جس کا امت سے کوئی تعلق نہیں وہاں اگلے دنوں میں منعقد ہونے والی ایک سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کریں گے ان کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں لہِذا پاکستان حالات کو نارمل سطح پر لے کر آئے تاکہ سرمایہ کاری کانفرنس منعقد ہو سکے ۔

امریکہ میں جب ہمارے وزیر اعظم صاحب تشریف لے گئے تھے وہاں انھوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئےیہاں سیاسی قیادت کی جیلوں سے ٹی وی نکالنے کے بھاشن دیئے تھے کبھی کبھی گزشتہ انتخابات میں ووٹ گننے والوں کو مبارک باد دینے کو دل کرتا ہے کہ ان کے حسن انتخاب کو داد دوں جنہوں نے کیسی وژن والی قیادت ہمیں عطا کی جنہوں نے فرمایا تھا کہ جب مودی منتخب ہوں گے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا کبھی لگتا کہ معلوم تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ایسے ہی حل ہو گا اس لئے مودی کی آمد کے بعد یہ نوید سنائی گئی تھی پھر مودی کو بار بار خطوط اور کالز نے بے تابی کو آشکار کر دیا تھا کہ یہاں کسی حکمران نے شائد اس شدت مودی کو رابطے نہیں کئے ہوں گے ایک بڑے اجلاس کی سائیڈ لائن میٹنگ جس میں دس منٹ مودی نے عنایت کئے تھے وہاں مودی کو سرپرائز دیا گیا تھا کہ ہم نے آپ کی منشاء کے مطابق کشمیری حریت پسندوں کے رہائشی کمیپس پر بلڈوزر چڑھا کر نیست و نابود کر دِیئے ہیں اب تو مان جاو مگر مودی بھی دھن کا پکا تھا نہیں مانا ۔

اس نے پانچ اگست کو اپنے عزائم کی تکمیل کر دی کیوں کہ یہ اس کا انتخابی نعرہ تھا ۔مقبوضہ کشمیر میں ایک نئے انتفاضہ نے سر اٹھایا ہے۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئی پیدا شدہ صورتحال اور تنازع کے خطے کے سیاسی اور جغرافیائی منظر نامے پر گہرے و دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ بین الاقوامی برادری ابھی تک بھارت و پاکستان کے ممکنہ ردعمل و پیش رفت کا جائزہ لے رہی ہے، اس دوران غیر ریاستی عناصر بھی باریک بینی سے معاملات کا مشاہدہ کر رہے ہیں
بھارت کی جانب سے کشمیر کی خاص حیثیت کی منسوخی کے فیصلے نے اس قضیے کے حل کے لیے کشمیری قیادت اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند کردیے ہیں۔ فوجی طاقت کے سخت مظاہرے، ذرائع مواصلات کی بندش اور دیگر مہیب انتظامی اقدامات کے تناظر میں سوچنے کی بات ہے کہ جموں و کشمیر کے امور کو چلانے کے لیے بھارت کے پاس اس لائحہ عمل کے علاوہ کوئی اور متبادل موجود نہیں تھا۔
بھارت کے پالیسی میکرز اور سیاسی حلقوں کی طرف سےمسلح انتہاپسندی کی روک تھام، کشمیر کی تنظیم نو اور اس کی مرکزی دھارے میں شمولیت، وغیرہ جیسی اصطلاحات کے استعمال سے یہ تأثر ملتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تمام آبادی انتہاپسند ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے ’حل‘ کرنے لیے اٹھائے جانے والے اس اقدام کے دُور رس اثرات اور ردعمل سے لابلد ہے۔

پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کی تلوار پہلے ہی تنی ہوئی ہے۔ عالمی برادری بشمول پاکستان کے دوست اور دشمن شدت اور مزاحمت کی تحریکوں کی حمایت مشکل سے ہی ہضم کر پائیں گے۔ بھارت سرکار اور بھارتی میڈیا کو پاکستان کی اس کمزوری کا بخوبی ادراک ہے اسی لئے وہ مسلسل اس پہلو کو اچھال رہے ہیں۔ بھارتی حکومت اور پالیسی سازوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے وقت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ایک ایسا وقت جب پاکستان اپنے سنگین مسائل میں الجھا ہوا ہے ۔ خاص طور پر پاکستان خطے میں اپنی کھوئی ساکھ اور اہمیت بحال کرنے کے لئے افغانستان میں امن کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔

امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتا آیا ہے۔ بھارت تو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا رہا ہے۔ لیکن اس بار صورت حال خاصی مختلف ہے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر تناؤ اور بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہو گا۔ اسی طرح اس بار کشمیر میں مزاحمت کار پاکستان کا دباؤ بھی قبول نہیں کریں گے ۔

ہماری سفارتکاری کا عالم یہ ہے کہ پوری دنیا میں کہیں سے ہم کشمیر کے معاملے پر واضح حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور یہ حقیقت ہے اس لئے کہ اب لفاظی اور جھوٹی تسلیوں سے نکل کر تلخ حقیقت کو سمجھنے اور سامنا کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاقائی ممالک میں کوئی اس ایشو پر ہمارے ساتھ ہو؟ اسلامی دنیا کا کوئی ملک سوائے مر د قلندر طیب اردگان کے علاوہ کوئی ہمارے ساتھ ہو؟ عالمی دنیا ؟ عالمی طاقتیں ؟ اس وقت امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں اپنا اسٹریٹجک پارٹنر قرار دے چکا ۔یہ ساری چالیں سامنے نظر آرہی ہیں ۔ مودی کے دورہ امریکہ میں ہوسٹن میں ہونے والی ریلی میں مودی اور ٹرمپ نے مل کر پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کر دیا گیا اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کی خوش فہمی دور ہو جانی چاہیے مگر افسوس اس وقت پاکستان پر جھوٹ کی حکمرانی ہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے ایران میں جاکر کہا کہ پاکستانی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوتی رہی ۔ بھارت کو بھی ایسے ہی پیغامات دِیئے جا رہے ہیں اسی لئے تمام ثبوت بھارت کو دیئے گئے کہ کشمیری مہاجرین کے کیمپس پر بلڈوزر چڑٰھا دِئے گئے ہیں امریکہ میں عین جس وقت مودی اور ٹرمپ پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہے تھے عین اسی وقت پاکستانی وزیر اعظم اپنے اداروں پر القاعدہ کو تربیت دینے کا اعتراف کر کے مودی اور ٹرمپ کے کیس کو مضبوط کر رہے تھے مگر اب کی بار لاڈ اتنا ہے کہ کوئی بولنے کو تیار نہیں کہ پوری دنیا میں اپنے ہی ملک اور اداروں کے خلاف غیروں کی زبان کیوں بولی جا رہی ۔ ٹرمپ نے مودی کی ریلی میں اعلان کیا کہ بھارت اور امریکہ مل کر اپنی دفاعی صلاحیتوں کو سامنے لائیں گے اور اپنی سرحدات کی حفاظت مل کر کریں گے اور اگلے دن ہم مودی سے ثالثی کی بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں ۔
اس کے بعد بھی ہمیں ٹرمپ سے یہ امید رہی کہ وہ کشمیر آزاد کروائے گا ؟

کسی ذی شعور انسان سے پوچھا جائے تو وہ اس کو حماقت ہی قرار دے گا ۔ایک اور فرمان جس پر بات کرنا ضروری کہ کشمیر یوں کی مدد کے لئے جہاد کرنا ظلم ہو گا ۔ یہ سوال میں مفتیان اور علماء پر چھوڑ رہا کہ مظلوموں کی مدد ظلم کیسے ہوگئی ۔ کشمیری مایوس ہو رہے ہیں ان کے دروازے بجا کر انڈین فوجی پوچھتے کب پاکستانی آ رہے تمھاری مدد کو ۔۔ سوچوں پاکستان کے پرچموں میں اپنے پیاروں کو دفن کرنے والے اس سوال کے جواب میں کس کرب اور شرمندگی سے گزرتے ہوں گے ؟ سوچیں کچھ دیر ۔۔۔۔۔۔اور پھر میرے ساتھ مل کر کہیں کشمیری ماوں بہنوں اور بھائیو اور شہیدو ہم شرمندہ ہیں ۔
کشمیریو ں کی قربانیاں دنیا میں بے مثال ہیں کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کوئی قوم اس دلیری سے لڑی ہو اس حد کی قربانی کی مثال تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی اور مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ قربانیوں کے جواب میں بزدلی کا جو مظاہرہ کیا گیا اس کی مثال میں تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ ڈرم بجانے سے ڈرامے بنانے سے نغمے چلانے سے قوموں کو منزلیں کبھی نہیں ملتیں ۔مجھے ایک بات کھائے جا رہی میری آنکھوں کے سامنے جماعت اسلامی بنگلا دیش کے شہید رہنماوں کی تصویریں ہیں جنہیں حالیہ عرصے میں پاکستان کی محبت کی سزا میں پھانسیاں سنا دی گیئں ۔ میرا دل ان کشمیریو ں کے لئے مغموم ہیں جو اس وقت کشمیر سے باہر بھارت بھر کی جیلوں میں قید ہیں جن کا کوئی علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ان کے اپنوں پر کیا گز ر رہی ہے ۔

بھارت نے پانچ اگست کا عمل ایک دم سے نہیں کیا اس نے ایک سال ہوم ورک کیا اس کے بعد تمام عالمی اور علاقائی قوتوں کو اعتماد میں لیا ۔ اس دوران اس نے پاکستان کے اندرونی حالات ، سیاسی عدم استحکام ، ڈوبتی معیشت ، بے چینی ، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے باعث درپیش چیلنجز کو سامنے رکھ کر اس وقت یہ فیصلہ کیا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دینے والوں کی کوئی تیاری نہیں تھی ہمارا ہر رہنما ء یہ کہہ کر گفتگو شروع کرتا ہے کہ ہم جنگ نہیں کر سکتے ۔ مانتے ہیں کہ جنگ کسی کے حق میں نہیں ہوتی مگر کیا ان نہتے کشمیریوں سے بھی ایک ایٹمی طاقت کمزور ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے آٹھ لاکھ فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں ان بیانات سے کبھی سوچا ان کشمیریوں کو کیا پیغام جاتا ہے جن کی لاشیں آ ج بھی پاکستانی پرچم میں دفن کی جا رہی ہیں

مجھے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے الفاظ نے رلا دیا جس میں انھوں نے کہا کہ کشمیری مائیں روز صبح دروازے کھول کر دیکھتی ہیں کہ شائد پاکستانی فوج آگئی ہو ۔۔ خدا را وہ کشمیری مایوس ہو رہے ہیں ، ان کی آنکھیں راستہ دیکھتے دیکھتے تھک گئی ہیں ۔تیس سال کی قربانیاں اور دو ماہ کا لاک ڈاون ماوں کے لخت جگر غائب ہیں ، کھانے پینے کا سامان نہیں ہے ہزاروں کشمیریوں کو بھارت کی جیلوں میں پہنچا دیا گیا ہے ۔تین سو سے زائد کشمیری ۔۔لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپتے ہیں میری اور آپ کی تین سو بہنوں کو بھاتی فوجی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے اس کے بعد بھی میں اور آپ چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور اہل اقتداربزدلی اور بے بسی کے درس دے رہے ہیں ۔اس بات کی بازگشت اب تیز ہوتی جا رہی ہے کہ کشمیر کی سودے بازی ہو چکی اب عالمی طاقتیں یہی کہہ رہی ہیں کہ جو کچھ ہو گیا ہے اسے قبول کیا جائے بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارمل کیا جائے پاکستان نے انڈیا کی جانب سے جاری کردہ نئے نقشوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ یہ سیاسی نقشے اقوام متحدہ کے نقشوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے-

پاکستان کا مسلسل یہی موقف رہا ہے کہ اس سے کشمیر یوں کی خود ارادیت متاثر نہیں ہو گی۔ لیکن انڈیا اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہا ہے، جرمن چانسلر اینگلا مرکل جو کہ گز شتہ دنوں انڈیا کے دورے پر تھیں ،کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عوام کی صورتحال اچھی اور پائیدار نہیں ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ وادی کشمیر میں حالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مگر کیا لاکھوں شہداء کے خون سے بے وفائی کر کے ہم مھفوظ رہ پائیں گے ؟ اکھنڈ بھارت کے ماننے والے اب آزاد کشمیر کی بات کر رہے انھیں یہ جرات کیوں ہو پا رہی ہے ؟ اس لئے ڈاکٹر مرسی شہید نہیں کہا تھا کہ اپنے گھر کے شیر مت مارو ورنہ پڑوس کے کتے بھی تم پر شیر ہو جائیں گے ۔ ایک ایٹمی طاقت بہترین فوج اور اکیس کروڑ مسلمان مملکت کے مختار ہمیں کہتے کہ کیا ہم جنگ کریں ؟ یا کہا جا رہا کہ ہم جنگ نہیں کر سکتے ۔۔کیا اس دن کے لئے کشمیریوں نے قربانیاں د ی تھیں ؟

میں سمجھتی ہوں کہ مودی کی حماقت نے کشمیریوں کی منزل قریب کر دی ہے اور اب ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ ہر کشمیری اور ہر پاکستانی بھارت کے خلاف متحد اور منظم ہو چکا ہے قوموں کی تاریخ میں ایسے لمحات آتے ہیں جب جرات مندانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ اگر جنگیں طاقت کی بنیادپر جیتی جا سکتیں تو نیٹو اور امریکہ افغانستان سے نہتے افغانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد انخلاء کے لئے بھیک نہ مانگ رہےہوتے روس دنیا کے نقشے سے مٹ نہ چکا ہوتا ویت نام امریکہ کا قبرستان نہ ہوتا ۔ جنگیں ایمان اور جذبوں سے اتحاد اور اتفاق سے اور اللہ کی مدد سے لڑی جاتی ہیں اگر آج ہم نے کروڑوں کشمیریوں کا سودا کیا تو نہ ہمارے گھر محفوظ رہ پائیں گے نہ ہی خطے میں کوئی محفوظ رہ سکے گا مظلوموں کی آہوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ان کے خون سے بے وفائی نہ کی جائے ورنہ مکافات عمل کچھ ہم بھگت چکے ہیں خدا نخواستہ ہم کسی نئے امتحان کا شکار ہو جائیں ۔

کشمیری تیار ہیں قوم تیار ہے بہاد ر افواج روزانہ سرحدوں پر جانیں پیش کر رہی ہیں امتحان قیادت کا ہے اور پوری قوم ہے کشمیری ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ان کو شرمندہ ہو نے سے بچا لیں ورنہ کل کو روز محشر ہم اللہ کے سامنے رسول خدا کے سامنے شہدا ء کے سامنے شرمندہ ہو ں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے