مزاحمت جاری ہے!

پہلے تو قارئین سے معذرت، آپ سے رابطے کا سلسلہ کچھ عرصے کے لیئے منقطع ہوا تھا، لیکن اب قلم کے ذریعے سے آئی بی سی کے ہی پلیٹ فارم پر یہ رابطہ قائم رہے گا. سبھی جانتے ہیں کہ دھرنا ختم ہوچکا، مجھے بھی اب تک بہت سے پیغامات موصول ہوچکے ہیں جس میں کہیں افسوس اور کہیں مذاح اڑایا جا رہا ہے، میں نے جواباً تو نہیں، بلکہ اس عام تاثر کو چیلنج کرنے کے لیئے فرض سمجھتے ہوئے اپنا قلم اٹھایا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس اہم ترین موڑ پر عوام کو بیوقوف بنتے ہوئے، کسی غلط تاثر کو خود پر طاری کرتے ہوئے مایوس ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے. یاد رہے ایسے کئی دھرنے ہونگے، فلاپ ہونگے لیکن مزاحمت تو جاری ہے اور اس پر کسی ایک کا نام نہیں ہے.

جن خواتین و حضرات کو لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان جدوجہد کا وہ آخری نکتہ ہیں، یا انہیں چیگویرا سمجھ لیا گیا تھا، وہ دراصل سیاسیات اور جدوجہد کی سیاست سے واقف نہیں ہیں. مولانا فضل الرحمان نا ہی ہیرو ہیں اور نا ہی کسی سوچنے سمجھنے والے کے ہیرو ہو سکتے ہیں، ہاں مگر ان کی سیاسی ساخت جو کہ وہ رکھتے ہیں، چاہے مدارس کے بچوں کے ووٹوں کی ہی طاقت سے، یہ حقیقت ہے کہ اس ساخت سے انکار نہیں کیا جا سکتا. سوال صرف اس حکومت پر ہے جو اقتدار میں آنے کے بھی قابل نا تھی اور بیساکھیوں کے سہارے ایوانوں میں پہنچی تو علم ہوا کہ ان میں سے تو اوپر سے نیچے تک کسی ایک فرد میں بھی حکومت کا پہلا گئیر لگانے کی قابلیت موجود نہیں ہے.

ہم غیر سیاسی عناصر کے سیاست کرنے پر بعد میں آئیں گے، پہلے ہم ان پر بات کرلیں کہ جن کو لا کر عوام کو تحفہ پیش کیا گیا اور اب ملک ان کی بدولت کہاں تک پہنچ چکا ہے. ہم معیشت کی پیچیدگیوں میں جانے سے پہلے ذرا ایک نظر پشاور کا بس منصوبہ دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کہاں تک پہنچا ہے. میں ایک صحافی ہوں مگر آپ اور میں اب تقریباً ایک سا ہی علم رکھتے ہونگے کہ اب تو بی آر ٹی بنانے والوں کو بھی اس کی تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے.جہاں ان کے اپنے صوبے میں ترقیاتی منصوبے کا یہ حال ہے، ہم ان سے کیسی امید لگا کر بیٹھے ہیں؟ لیں جی خان صاحب معیشت اور تعلیم کا ڈنڈورا پیٹتے ہوئے میدان میں اتار دیئے گئے، جی بالکل "اُتار دیئے گئے”. آتے ساتھ ہی ملک میں تقریباً ترقیاتی منصوبے بند کردیئے گئے، تعلیم کا بجٹ پچاس فیصد سے بھی کم کردیا گیا، ملک میں تقریباً آپوزیشن، یا یوں کہ لیں کہ اپوزیشن میں بھی اچھے بچوں کے علاوہ تمام گندے بچوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، کیوں؟ کیونکہ وہ بات نہیں مانتے تھے، اگرہم کہیں کہ ان کو کرپشن پر بند کیا گیا ہے تو مجھے آپ کو نواز شریف کے خلاف اس عدالتی فیصلے سے بات شروع کرنی پڑے گی جس کا جج خود ایک تنازع بنا ہوا ہے.

جہاں اس قدر معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے ہوں اور ملک کوئی اور طاقت چلا رہی ہو تو میرے ایک دوست آج اس کو منی مارشل لاء گردان رہے تھے، میں اس کو مکمل مارشل لاء بلکہ اس دور میں مارشل لاء کی جدید شکل کہوں گا. جدید بھی کہنے سے مجھے اپنے فہم پر سوال اٹھانے ہونگے. مطلب جدیدیت کے کس تقاضے کے تحت سیاسی انتقام لیئے جاتے ہیں؟ خاص کر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخری دور میں؟ کہاں ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی تربیت کسی اور شعبے کی ہو، آپ کرتے کچھ اور ہوں، اور آپ بیڑا کوئی تیسرا اٹھا لیں اور کہیں کہ آپ کے علاوہ اس ملک میں ہر وہ انسان غدار ہے جو آپ کے اس عمل کے خلاف کچھ کہہ تو دے. اس کے فوت شدہ والدین کو قبر میں ہی ایف آئی آر پکڑا کر آئیں گے، بس چلے تو شائید اس سے بھی کچھ زیادہ.

خیر، جب کوئی کہے کہ مارچ، دھرنا پالیسی ناکام ہوگئی اور اس کو وزیراعظم کی جیت سمجھا جانے لگے تو ایسے بیانیئے کو واقعی سلام بنتا ہے. ان سے ایک دوستانہ سوال کرکے آگے بڑھوں گا کہ صرف یہی بتا دیں کہ آپ کو یہ بات کتنے فیصد یقینی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے پیچھے کوئی نہیں تھا؟ اب آئیں اس بات پر کہ ہمیں مزاحمت کا حصہ ہر حال میں رہنا ہوگا، ہاں آئیندہ وہ مزاحمت کتنی شکلیں اختیار کرتی ہے، بطور سیاسیات کے طالبعلم کے میرے لیئے یہ بات گنجائش رکھتی ہے کہ اس پر وقت آنے پر سوچا جائے، مگر ایسے جبر کے دور میں خاموش رہنا، یا ان حلقوں میں ہونا کہ جو کسی مزاحمت کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ ان کا صرف مذاق اڑا سکتے ہیں، بہتر ہے کہ ہم جیسے صحافی مزاحمتی صفوں میں ہیں، اور آئیندہ بھی رہیں گے. ہم صرف ایک دھرنے کو موضوع نا بنائیں تو غور کے قابل یہ بات بھی ہے کہ اگر آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں اور سب اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی خاموش ہیں، تو آپ یا تو آپ ہر صورت انہی صفوں میں کھڑے ہیں جن کو اپنا نہیں پتا کہ کس گیند پر ان کی وکٹ پیچھے سے خود ہی اکھاڑ لی جائے گی. یہ ملک تبھی آگے بڑھےگا جب اس کے عام شہری کو اپنی حالت پر ہنسنے کی بجائے رونا اور آواز اٹھانا آجائے گا، مگر شائید اس لمحے کو ابھی بہت وقت درکار ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے