طلباء کسی بھی قوم کا ایک اہم سرمایہ ہوتے ہیں ۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس معاشرے میں طلباء کے کلیدی کردار پر منحصر ہے ۔چونکہ یہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہیں اس لیے کسی بھی صورت قوم و ملک کی ترقی میں طلباء کے تعمیری کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔عملی زندگی کے مختلف مراحل میں یہ اپنا لوہا منواتے ہیں اور قوم کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں ۔ انھی نوجوان نسل میں سے بہت سے مستقبل میں قوم کی قیادت بھی کرتے ہیں ۔آج اگر اسمبلی کے ایوانوں میں جھانکا جائے تو بہت سے ایسے کامیاب سیاست دان نظر آئیں گے جنھوں نے زمانہ طالب علمی سے سیاست کا آغاز کیا ۔
پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ملک بھر کی جامعات میں طلباء کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کو مد نظر رکھ کر تمام جامعات میں طلباء یونینز کا قیام عمل میں آیا ۔ہر سال ان یونینز میں سے ایک نمائندہ منتخب ہوتا اور اگلے پورا سال. تک طلباء کے تمام مسائل حل کرتا۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں جامعات میں بہت سے مسائل حل کیے گئے ان میں طلباء کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئے ہوسٹلز کی تعمیر، جامعہ میں میڈیکل سنٹر، طلباء کے لیے مفت ٹرانسپورٹ جیسے اہم مسائل شامل تھے۔ اس کے علاوہ طلباء ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی جس سے سب کو اس دور کے تمام حالات سمجھنے میں مدد ملتی ۔
پاکستان میں جب تک طلباء یونین رہیں جامعات میں طلباء کے تمام مسائل حل ہوئے اور انھیں اپنے نصاب کے علاوہ دیگر علوم جیسے سیاست، معاشیات، عمرانیات وغیرہ پر بھی عبور رہا۔ ان یونینز پر پابندی کے بعد طلباء سیاسی طور پر نابالغ ہو گئے ۔ ان کی سیاست اور دیگر معاشرے کے مسائل میں دلچسپی ختم ہو گئی ۔ آج اگر کسی طالب علم کو کسی سٹڈی سرکل میں مدعو کیا جائے تو وہ آنے سے پہلے گھبراتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ طلباء میں سیاسی شعور کی کمی ہے ۔ان تمام باتوں سے طلباء یونینز کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ طلباء یونینز زور پکڑتی گئیں اور ان نوجوانوں میں سے بہت سوں نے آگے بڑھ کر ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کو جب اقتدار ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا تو اس نے مختلف الزامات لگا کر اسلامی جمیعت طلباء کے علاوہ باقی تمام طلباء یونینز پر پابندی عائد کر دی ۔
آج کا طالب علم اپنے نصاب کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اسی وجہ سے وہ اپنے حقوق تک حکومت سے مانگنے سے ڈرتا ہے ۔ملک کی تمام جامعات میں طلباء مختلف مسائل کا شکار ہیں ۔ نوجوان نسل کو تعلیم دینا حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے لیکن دن بدن فیسوں میں اضافے کی وجہ سے پہلے سے موجود طلباء کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں بلکہ سینے میں علم کی امنگ لئے نئے آنے والے طلباء ان. اخراجات کے ڈر سے جامعات میں داخلہ لینے سے کتراتے ہیں ۔جامعات میں جنسی ہراسانی دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ بہت سی طالبات اس سے گزر رہی ہیں لیکن رسوائی کے ڈر سے کسی سے کوئی بات نہیں کر پاتیں۔
طلباء یونینز کی بحالی اور ان میں سیاسی شعور موجود دور کی ایک اہم ضرورت ہے ۔ ملک کا 70 فیصد سے زیادہ نوجوان نسل ہے ۔ آج اگر ان میں سیاسی شعور نہ لایا گیا تو مستقبل میں بھی عوام ایک مخصوص مقتدر طبقے کے ہاتھوں پستے رہیں گے ۔
پچھلے سال کی طرح اس سال بھی 29 نومبر کو طلباء کا ایک عظیم مارچ ہونے جا رہا ہے جس میں ملک کی تمام بڑی جامعات کے طلباء شرکت کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پر لگائی گئی تمام پابندیاں ختم کی جائیں ۔ جامعات میں سیاسی آگاہی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو۔ اس کے علاوہ نوجوان نسل کے لئے تعلیم حاصل کرنے کو آسان بنایا جائے اور طلباء میں سیاسی و سماجی شعور پیدا کیا جائے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے نوجوان نسل میں شعور پیدا ہو گا اور وہ اپنے مطالبات کے لیے آواز اٹھا سکیں گے ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی وہ طلباء تھے جنھوں نے طلباء تحریک کے ذریعے ایوب خان جیسے آمر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اگر آج ملک بھر کے تمام طلباء متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے نکلے تو کل انھی میں سے کچھ اپنی قوم کی قیادت کے قابل بھی ہونگے۔