مولانا کب سے آرہاہے (مکمل تین حصے)

[pullquote]صحافی ظہیر احمد نے مولانا کی سیاست کے حوالے سے آئی بی سی اردو پر تین کالم لکھے ہیں جنہیں قارئین کی سہولت کے لیے ایک ہی جگہ شائع کیا جا رہا ہے . مدیر آئی بی سی اردو [/pullquote]

ایک سکھ کی کسی گاوں میں دکان تھی گاوں کا مولوی بھی وہاں سے سودا سلف لیتا تھا جب ادھار زیادہ ہوگیا تو سکھ دکاندار نے پیسوں کا تقاضا کیا تو مولوی نے کہا کہ دے دوں گا مگر تاخیر ہوگئی تو سکھ نے کہا جب تک آپ پہلا حساب برابر نہیں کرتے مزید ادھار پر سودا نہیں دوں گا مولوی کو سخت غصہ آیا اور اس نے مسجد میں تقریر کی کہ سکھ کی دکان سے کوئی بھی سودا نہ لے کیونکہ وہ وہابی ہوگیا ہے سب نے سکھ کی دکان کا بائیکاٹ کر دیا یوں سکھ کو فکر لاحق ہوئی بھاگا ہوا مولوی کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے معاف کر دیں میں نہ تو پیسوں کا تقاضا کروں گا اور نہ ہی مزید سودا سلف لینے سے منع کروں گا اس طرح مولوی نے دوبارہ تقریر کی کہ سودا خریدا جا سکتا ہے کیونکہ سکھ صاحب الحمد اللہ دوبارہ سکھ ہو چکے ہیں۔

اس قصے کا ذکر یہاں کیوں کیا اسکو بعد میں بتاتے ہیں۔

مولانا کے دھرنے کو دیکھتے ہوئے ماضی ایک فلیش بیک کی طرح سامنے کھڑا ہے. والد صاحب مولانا کے بہت بڑے فین تھے ان کے حق میں دلائل بھی دیتے تھے مگرجب کوئی نہیں قائل ہوتا تھا توغصہ بھی بہت کرتے تھے . وہ طبیعت کے سادہ اور دوسروں پر فوری اعتبار کرنے والے تھے۔بیٹا چونکہ والد سے متاثر ہوتا ہے اور پچپن سے لڑکپن کا زمانہ تھا معاملات پوری طرح تو نہیں بس کچھ کچھ سمجھ آتے تھے مگر اتنا ضرور تھا کہ جب کوئی بھی والد صاحب سیاسی یا مذہبی بحث کرتا تھا تو اس پر غصہ آتا تھا جو والد صاحب کی بات نہیں مانتا تھا .

اس زمانہ میں محترمہ بے نظیر ملک واپس آئی تھیں اور الیکشن کا اعلان بھی ہو چکا تھا اور مولانا کے بیانات کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں ہر اخبار میں آتے تھے تو اسی حساب سے والد صاحب کا بھی یہی موقف تھا. اس طرح اس زمانے کے مسلم لیگ اور پی پی پی مخالف ووٹرز بھی مولانا سے مطمئن تھے۔

الیکشن ہوگئے اور پی پی پی اکثریت لیکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔محترمہ نے اتحاد کے لیے مولانا کی طرف ہاتھ بڑھایا اور مولانا سے مدد مانگی. وہ وقت تھا جب سب کو یقین تھا کہ مولانا اپنے نظریے پر رہتے ہوئے بی بی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ مگر حیران کن طور پر مولانا نے بی بی کو مثبت جواب دیا تو سب حیران رہ گئے کہ مولانا تو عورت کی حکمرانی کے ہی خلاف تھے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے۔

جب ایک صحافی نے مولانا سے پوچھا تو مولانا نے کہا ہمارا منشور ہے کہ صدر اور وزیر اعظم مرد ہی ہوں مگر چونکہ آئین پاکستان عورت کی حکمرانی کا راستہ نہیں روکتا اس لیے ہم نے آئین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے ماموں جو آج بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں نے میرے والد صاحب کو کہا کہ یہ مولانا نے کیا کیا؟؟ میرے والد صاحب مولانا کے پکے ساتھ تھے انھوں نے کہا کہ بلکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے تو اور مولانا کی دی ہوئی دلیل ہی دہرا دی تو ماموں نے جواب دیا کہ مولانا کی عورت کی حکمرانی کی مخالفت سے حمایت کرنے کی دلیل بالکل ایسی ہی ہے کہ جیسے کہہ رہے ہوں اسلام میں شراب کی کی ممانعت ہے مگر چونکہ ملک میں اسلامی حکومت نہیں تو اس لیے شراب جائز ہے کے مترداف ہے تو اسکے جواب میں والد صاحب کے پاس کوئی تسلی بخش جواب تو نہیں تھا مگر وہ مولانا کے ساتھ ہی تھے .

ماموں کی باتیں سن کر والد کو غصہ آیا فطری طور پر انکے بیٹے کو بھی آیا جس کو سمجھ تو نہیں تھی مگر والد کے ساتھ تھا۔یوں مولانا حکومت کے ساتھ رہے اور جب حکومت کے برے دن شروع ہوئے تو حسب معمول حکومت کا ساتھ چھوڑ کرمتحدہ اپوزیشن سے جا ملے۔ اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور صدراسحاق خان نے نوے کے الیکشن کا اعلان کردیا۔۔۔۔

نوے کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نے واضح اکثریت سے جیت لیے اور پی پی کو شکست ہوگئی۔ اس بار مولانا نے سابق اتحادی بی بی کو نظر انداز کیا اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا. یہ وہ وقت تھا جب پی پی کے سپورٹرز نے کہا کہ مولانا اقتدار کے بھوکے ہیں اور میرے ماموں جن کے لیڈر نواز شریف وزیر اعظم بننے جا رہے رہے تھے اور جو مولانا کی سیاست کے سخت ناقد تھے انھوں نے بھی مولانا پر ہی تنقید کی کہ جب بی بی حکومت میں تھی تو ان کے ساتھ اور اب نواز شریف اقتدار میں آرہے ہیں تو انکے ساتھ۔۔

میرے والد صاحب کی دلیل تھی کہ اب کی بار تو ہے ہی اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تو انکا ساتھ دینا تو بنتا ہے اور محترمہ کے ساتھ نہ ہوتے تو وہ کوئی غیر اسلامی قانون پاس کروا لیتیں۔۔والد صاحب کا ماننا تھا کہ دینی قوتوں کا اقتدار میں رہنا ضروری ہے تاکہ کچھ اپنی منوا سکیں اور کچھ ایسا جو شریعت کے خلاف ہو اس کو رکوا سکیں۔ ابو کے دوست اس پر کافی بحث کرتے تھے مگر مجھے ابو کی دلیل اچھی لگی۔ یوں مولانا حکومت میں شامل ہوگئے اور امور خارجہ کی کمیٹی کے چئیرمین بن گئے یاد رہے مولانا صرف دو بار خود اپنی نشست ہارے تھے ان میں سے ایک نوے کا الیکشن تھا ۔

جیسے ہی نواز شریف کی حکومت کمزور پڑنے لگی اور حالات ناسازگار ہوگئے تو مولانا دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الگ ہوگئے اور یوں والد صاحب نے مولانا کے الگ ہونے کو بھی سراہا۔ حکومت ختم ہوگئی ترانوے کے الیکشن کا اعلان ہوا الیکشن میں واضح اکثریت تو کسی کو نہ ملی البتہ پی پی اور اسکے اتحادی اس پوزیشن میں آگئے کہ حکومت بنا سکیں . ایک بار پھر مولانا نے محترمہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ان الیکشن میں جماعت اسلامی نے اسلامک فرنٹ کا پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنے وعدے پورے نہیں کِئے تھے ،، اس لیے کسی کا ساتھ نہیں دیں گے یوں قاضی صاحب نے مولانا کی جماعت کو بھی کہا کہ بی بی کا ساتھ نہ دیں مگر وہ نہ مانے اس وقت مولانا اور قاضی صاحب کے درمیان کچھ بیان بازی بھی ہوئی۔ یوں مولانا کی جماعت نے بی بی کو ووٹ دیا اور مولانا خود ایک بار پھر امور خارجہ کی کمیٹی کے چئیرمیں بن گئے .

والد صاحب کا کہنا تھا کہ یہ عہدہ ہوتا ہی اپوزیشن کے پاس ہے مگر ماموں جان کا کہنا تھا کہ مولانا نے ایوان میں جب ووٹ ہی بی بی کو ڈالا تو کونسی اپوزیشن اور کمیٹی چئیرمین کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا جس کو گھر بھی ملتا تھا تو یہ کیسی اپوزیشن جس میں فائدہ ہی فائدہ ہے مگر والد صاحب جیسے میں نے شروع میں کہا کہ وہ سادہ طبیعت اور اعتبار کرنے والے تھے . مولانا ادھر سے ادھر ، ادھر سے ادھر جاتے رہے ،، موقف بدلتے رہے،، ٹس سے مس ہوتے رہے مگر والد صاحب انکے ساتھ تھے۔

یوں ایک بار پھر حالات خراب ہوئے اور بی بی کی حکومت ختم ہوگئی مولانا ایک بار پھر بی بی کی حکومت اور انکی پالیسیوں کے خلاف ہوگئے . الیکشن ہوئے جس میں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت لی . مولانا اپنی نشست ہا ر گئے،،، نواز شریف کو کسی کی ضروت نہیں تھی ،، مولانا کو لفٹ نہیں کروائی ،،، مولانا سیخ پا ہوئے،،، دھاندلی کے الزمات لگائے اور کیا کیا کہا ،،، وہ مجھے بہت بعد میں سمجھ آیا،،،

اس کی بات بعد میں بتاتا ہوں فی الحال بات ہوجائے اگلے الیکشن کی،،،، جو مشرف نے کروائے ،،،، ایم ایم اے بنی تمام دینی جماعتیں ایک ساتھ جمع ہوگئیں ،،، والد صاحب نے کہا ایم ایم اے کو ووٹ ڈالنا ہے ،،، یوں اپنا حق پہلی بار استعمال کیا اور ایم ایم اے کو ووٹ ڈالا اور سمجھا کہ دین کی خدمت ہوگی ،،، اسکے بعد معاملات کو ابو کی نظر سے دیکھنے کی بجائے میں نے خود سمجھنا شروع کر دیا ..

مشرف تو اسلامی نظام کے ہی خلاف تھا. ابو سے سوال کیاکہ کیا اسکا ساتھ دینا دین کی خدمت ہے ؟ کیا اسکو سرحد اسمبلی نے جہاں ایم ایم اے کی حکومت تھی ،،، صدر کو ووٹ دینا دین کی خدمت ہے؟؟

ایم ایم اے کا بننا جہاں دوسرے فرقوں کا کافر کافر کہنے کے حوالے سے،،،،اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے حوالے سے ایک بہتر فیصلہ تھا ،،،وہاں دنیاوی مفاد کے لیے ایک آمر کا ساتھ دینا بھی ایک بڑا سوال تھا ،،، سوالات کا ایک انبار تھا اور ذہن ماوف تھا۔

اسی زمانے میں قاضی حسین احمد نے ایم ایم اے سے الگ ہونے کااعلان کیا اور سرحد اسمبلی توڑنے کا کہا کہ مشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا مگر مولانا نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

یوں جب مشرف کا مشکل وقت شروع ہوا تو ہمیشہ کی طرح مولانا نے انکے خلاف بھی تقریریں شروع کردیں ،،، اگلے الیکشن ہوئے،،، پی پی جیت گئی،،، گیلانی وزیر اعظم اور زرداری صدر بن گئے ،،، مولانا حکومت کا حصہ بن گئے ،،، تین وزارتیں ملی اور کشمیر کمیٹی کے چیرمین بھی بن گئے اور حکومت کا دورانیہ ختم ہونے سے کچھ پہلے الگ ہوگئے ،،،، پھر الیکشن ہوئے ،،، نواز شریف جیت گئے انھوں نے مولانا کو لفٹ نہیں کروائی ،،، مولانا سیخ پا ہو رہے تھے کہ عمران خان کے دھرنے نے نواز حکومت کو مجبور کر دیا ،،، مولانا مجبوری بن گئے،،، یوں فنڈز بھی لیے ، وزارتیں بھی مل گئیں .

اٹھارہ کا الیکشن ہوا عمران خان وزیر اعظم بن گئے مولانا سناتوے کے بعد پہلی بار اپنی نشست ہارے اور ستناوے کے بعد ایسا موقع آیا کہ حکومت میں شامل نہ ہوسکے،،، آج دھاندلی اسلام اور دوسرے ایشوز کو لیکر وہ سڑکوں پر ہیں ،،، اور سخت تقاریر کر ہے ہیں اور جو جو کارڈ کھیل سکتے ہیں ،،، کھیل رہے ہیں،،، مگر یہ پہلی بار نہیں ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں ،،، انکی سیاست کا فلیش بیک ،،،، بیانات اور الزامات اور تضادات کے حوالے سے سب سامنے ہے،،، اب سب اپنی آنکھ سے سامنے ہے والد صاحب کی آنکھ سے نہیں۔۔۔آج عمران خان یہودی کا ایجنٹ ہیں،،، وہ نواز شریف کو امریکہ کا لایا ہوا کہہ چکے ہیں،،، کب کہا تھا تو جناب یہ یہ بات ہے ستانوے کی ۔۔۔۔۔۔۔

مولانا نے ستانوے کے الیکشن کے بعد کہا تھا نواز شریف کو عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لایا گیا ہے ،،، آج جب وہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے ہیں تو نواز شریف کے بارے میں پاس کیئے گئے ریمارکس بھی سامنے ہے ،،، آج جب وہ دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں تو ستانوے کے الیکشن کے بعد نہ صرف دھاندلی کے الزامات لگائے گئے بلکہ سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی ،، جمہوریت چھوڑنے کی دھمکی بھی دی ،،، جو کچھ اس طرح تھی،،،، سوال تھا کہ ستانوے سے پہلے آپ سڑکوں پر آنے کے خلاف تھےاب کیوں حق میں ہیں،،، تو مولانا کا جواب تھا کہ ،،، ہم سے کیوں توقع کی جاتی ہے کہ ہم معذرت خوانہ سیاست کریں گے ؟؟،،،، دھاندلیوں کے ذریعے ہم کو ہرواتے ہو اور اخبارات کے ذریعے ہمیں بدنام کرتے ہو،،،، پھر ہم اسمبلیوں سے باہر لڑیں گےاور گریز نہیں کریں گے۔۔۔

یہاں یہ یاد رہے کہ دو ہزار آٹھ اور تیرہ کے الیکشن میں بھی مولانا نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا ،،،، مگر سڑکوں پر آئے ،،،نہ دھرنے دیئے کیونکہ مولانا نا صرف اسمبلی کا حصہ تھے بلکہ حکومت کا بھی جصہ تھے۔۔

مولانا کی کے سارے بیانات اور عمل بے ترتیب صورت میں سامنے ہیں اور آج اپنی آنکھ سے انکا مفہوم بلکل واضح نظر آرہا ہے ،،، عورت کی حکمرانی کی مخالفت سے حمایت کی ،،، انوکھی منطق کی طرح ،،،، مولانا سے سہیل واڑئچ نے سوال پوچھا کہ حکومت کے خلاف جہاد کوتو خروج کہتے ہیں،،، کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں تو ،،،، مولانا کا جواب تھا کہ،،،، اسلامی حکومت ہوگی تو خروج ہوگا تو خروج کیسا یہ تو خود خارج ہیں۔۔واہ مولانا۔۔کیا منطق ہے،،، پہلا سوال کیا آپ اسلام کے اصولوں کے خلاف چلے گئے ،،، دوسرا اگر وہ خارج ہیں تو آپ ہربار ان کا ساتھ کیوں دیتے ہیں،،، یاد رہے یہ سوال عمران خان کے بارے میں نہیں نواز شریف کے بارے میں تھا ،،، جی ہاں ستانوے میں

مولانا کی ایک اور انوکھی منطق ،،،، سوال ستانوے کے الیکشن کے بعد،،،، آپ اور آپ کے والد سیاسی آدمی رہے ہیں ،،،، آپ نے اچانک موقف بدل لیا اور الیکشن کی بجائے انقلاب کی بات شروع کر دی ہے تو مولانا کا جواب تھا کہ ،،،، ہم اب بھی وہی بات کرتے ہیں آپ نے میری پارٹی کی حکمت عملی کے بارے میں نہیں پوچھا،،،، بلکہ اسلامی حکم کے بارے میں پوچھاہے ،،، گویا یہاں مولانا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پارٹی کی حکمت عملی اسلامی حکم کے بارے میں ہے؟؟ کیا اسلامی حکم کو اپنی منشا ، مرضی یا مفاد کی بنیاد پر موم کی ناک بنایا جاسکتا ہے ؟

والد صاحب سے جب ان ایشوز پر بات کرتے تھے تو وہ مولانا کا وسیع انظر کہتے تھ،،، جب پوچھا جاتا کہ اگر مفادات لینے کا نام ہی اسلام کی خدمت تھا ،،، اصول اور قربانی کوئی معنی نہیں رکھتے تو اسلام تو ہر کربلا کے بعد زندہ ہوتا ہے اور ماموں جان جو اسوقت دلیل کی بنیاد پر مولانا پر تنقید کرتے تھے وہ خود آج کل مولانا سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید نواز شریف کو وہ ہی بچا لیں۔

مذہب کارڈ کو بنیاد بنا کر مولانا کا جارحانہ رویہ اختیار کرنا،،، پھر اس میں گنجائش نکالنا اور پسپائی اختیار کرنا ،،، جس کی تازہ مثال دھرنے سے پسپائی ہے،،، مولانا پر ختم ہے،،، مولانا سے بیس سال پہلے سوال پوچھا گیا کہ ،،، آپ کی طرز سیاست میں واضح تبدیلی آگئی ہے،،، تو مولانا کا جواب تھا کہ ،،، تبدیلی آنی چاہِئے اور بر وقت تبدیلی کا نام ہی سیاست ہے ،،،، تو مولانا آپ سیاست کریں ،،، زرداری کو ناکوں چنے چبوائیں یا نواز شریف کے ساتھ کھیلیں یا انکو بچائیں یا عمران خان کو سیاست کے میدان میں چاروں شانے چت کریں مگر براہ مہربانی اسلام کا نام استعمال نہ کریں،،،،

مذہب کارڈ نہ کھیلیں،،، کسی کے مسلمان ہونے نہ ہونے کے فتوی نہ لگائیں اور علمائے اکرام کو بدنام نہ کریں۔ آپ اپنے لچھے دار ماضی کی بنیاد پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں،،، دوسرے فرقوں کے علماء تو دورکی بات آپ کے اپنے فرقے کے علماء جن کی ساکھ آپ سے کہیں زیادہ ہے وہ آپ سے اتفاق نہیں کرتے،،،، آپ وہ ہیں جن کے نزدیک کرتار پورہ جانا حرام اور گولڈن ٹیمپل جانا ہلال ہے ،،،، اور آپ وہی مولوی ہیں جس کا تذکرہ اس تحریر کے شروع میں کیا ،،،، جو بوقت ضروت سکھ سے سودا لینے اور نہ لینے کے لیے فتوی جاری کرتا ہے اور سودا نہ لینے کا فتوی دینے کے بعد کہتا ہے کہ سکھ دوبارہ سے وہابی سے سکھ ہو چکا ہے لہذا سودا سلف اس کی دکان سے خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے