نواز شریف بیمار نہیں ہیں!

یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کے پلیٹلٹس کے اتار چڑھائو کی خبریں میڈیا پر خوب مرچ مسالے لگا کر پیش کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں تک میڈیکل رپورٹس پہنچنے سے پہلے خبر میڈیا کو لیک کر دی جاتی ہے۔ اینکروں سے ہوتی تجزیہ کاروں کے ہاتھ چڑھتی ہے اور تب جا کر سابق وزیراعظم کی فیملی کو میڈیکل رپورٹس تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ نواز شریف کی بیماری پلیٹلٹس کے اتار چڑھائو تک محدود نہیں۔ ان کو بہت سے عارضے لاحق ہیں۔ گردوں میں بھی مسئلہ ہے۔ دل کی شریانوں میں سات اسٹنٹ بھی پڑ چکے ہیں۔ دھڑکنیں بھی بےترتیب ہیں۔ بلڈ پریشر کی شکایت بھی ہے۔ حسین نواز نے ایک ٹویٹ میں زہر دینے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ طبیعت شدید ناساز ہونے سے پہلے نواز شریف کے درست علاج میں روڑے اٹکائے گئے۔ ایک سال تک ڈاکٹروں کے ایسے بورڈ بنے جن میں متعلقہ ڈاکٹرز موجود نہیں تھے یا انہیں درست تشخیص کا موقع نہیں دیا گیا۔ جب تک طبیعت بہت زیادہ خراب نہیں ہوئی، نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت نصیب نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے حکومتی وزراء ان کی بیماری کا تمسخر اڑاتے رہے۔

ان کے علاج میں حکومت علی الاعلان رخنے ڈالتی رہی۔ ایک بیمار شخص سے انتقام پر فخر کرتی رہی۔ اب نواز شریف کی حالت اتنی خراب ہے کہ انہیں بیرونِ ملک علاج کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر بھی حکومتی بینچوں کا فاسقانہ رویہ عروج پر ہے۔

تین سو ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگانے والے اب سات ارب روپے کے بانڈ بھرنے کو سیاسی کامیابی کہہ رہے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے اب تک تین دفعہ لندن کا ٹکٹ منسوخ کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ اب بیرونِ ملک علاج کی اشد ضرورت ہے۔ اب کسی ناگہانی کا مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا۔

نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان چاہے کچھ بھی کہیں میں آپ کو بہت وثوق سے بتاتا ہوں کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں۔

چند سال پہلے کی بات ہے کہ نواز شریف بھلے چنگے اس ملک کے وزیراعظم تھے۔ ملک ترقی کر رہا تھا، لوڈشیڈنگ ختم ہو رہی تھی، ترقیاتی منصوبے شروع ہو رہے تھے، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر کچھ لوگوں کو ’’سب کچھ ٹھیک‘‘ قبول نہیں ہوتا۔اسی لئے آج کی بر سرِ اقتدار سیاسی جماعت کبھی لاک ڈائون کی دھمکی دی اور کبھی پاناما کا قضیہ چھیڑ دیا۔

ایک منتخب وزیر اعظم کو پاناما کیس میں بس ایک اقامے کی بنیاد پر نکال باہر کیا گیا ۔

اب واضح طور پراحتساب انتقام میں بدل چکا ہے۔ اب بغضِ نواز شریف بہت واضح ہو گیا ہے۔ اب صاف لگ رہا ہے کہ نواز شریف سے وزارت عظمیٰ چھن جانے سے کچھ لوگوں کی تشفی نہیں ہو رہی ۔ وہ اب سابق وزیر اعظم کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

انتقام اس قدر رکیک ہو جائے گا یہ کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ حکومت اتنی سنگ دل ہو جائے یہ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ شدید علت کے ان مرحلوں پر سب کے دل نرم پڑ جاتے ہیں ۔

دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ لیکن یہاں نواز شریف سے خوف اتنا ہے کہ اس علالت میں بھی بدنیتی دکھائی دی جا رہی ہے۔ لیکن میں آپ کو پھر یہ خبر دیتا ہوں کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں۔

نواز شریف پر یہ افتاد نہ آتی اگر وہ ’’خفیہ منصوبے‘‘ کے تحت چپ چاپ وزارت عظمیٰ سے الگ ہو جاتے۔ نواز شریف پر یہ مشکل نہ بنی ہوتی اگر وہ عام خیال کے مطابق اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن ہی رہ جاتے۔ نواز شریف پر یہ مصیبت نہ آتی اگر وہ جی ٹی روڈ کا سفر اختیار نہ کرتے۔ مگر نواز شریف نے تمام تخمینوں کے برعکس آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔

ووٹ کو عزت دینے کی بات کی۔ ایسے سماج میں جہاں ان سب باتوں کو کہنے کی ممانعت ہو وہاں یہ سب کچھ کہہ دینا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ جو بات آج ملک کے ہر گلی کوچے میں ہو رہی اس کا شعور لوگوں کو دے دینا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ نواز شریف نے لندن سے خود آکر گرفتاری پیش کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ ان کے ساتھ وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے۔

یہ نواز شریف پہلے سے جانتے تھے اس قربانی پر انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ اب شدید علالت کی حالت میں بھی اگر وہ بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ، اگر اس صورت حال میں بھی وہ ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کر رہے ہیں تو بیمار نہیں ہو سکتے۔

بیمار تو وہ معاشرہ ہے جہاں ووٹ کو عزت دینے کے نام پر لوگ غداری کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ بیمار تو وہ میڈیا ہے جس پر جلالی تجزیہ کار جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کو کہنیاں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ بیمار تو وہ اینکر ہیں جو ایک مریض کی رپورٹیں ثبوت کے طور پر ہوا میں لہرا لہرا کر پروگراموں کی ریٹنگ لیتے ہیں۔ بیمار تو وہ حکومت ہے جو اس حالت میں بھی انتقام سے باز نہیں آ رہی۔

بیمار تو وہ قانون ہے جو ایک مریض سے سات ارب روپے کا تاوان طلب کرتا ہے۔ بیمار وہ میڈیکل بورڈ ہیں جو گزشتہ ایک سال نواز شریف کے علاج میں تامل سے کام لیتے رہے۔ بیمار تو وہ وزراء ہیں جو اس حالت میں بھی ایک مریض کا تمسخر اڑانے سے باز نہیں آرہے۔سیاستدان لیکن نواز شریف بیمار نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک منتقم المزاج جمہوریت دشمن ذہنی مریض بن چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے