آزادی مارچ، مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کا مظہر تھا یا اُس تاثر کے خاتمے کا، جو اِس عنوان سے ان کی شخصیت کا حصار کیے ہوئے ہے؟
سیاست ایک پیچیدہ عمل ہے۔ چراغِ راہ گزر کو اُن ہنگاموں کی کم ہی خبر ہوتی ہے جو درونِ خانہ برپا ہوتے ہیں۔ خبر، تخمینہ، اندازہ، تعصب، نہ جانے کتنے عوامل ہیں جن کا اختلاط ایک تجزیہ کو جنم دیتا ہے۔ کبھی عجیب الخلقت اور کبھی صناعی کا شاہکار۔ اکثر یہ مصور کی مشاطگی کا کمال ہوتا ہے جو اسے آراستہ کرتا ہے۔ وہ اسے کبھی خبر اور کبھی خیال کے رنگوں سے سنوار دیتا ہے۔ آدمی کو مگر اللہ نے عقل کی آنکھ دے رکھی ہے۔ وہ چاہے تو اس سے پھوٹنے والا نور، رنگوں کے پردوں کو چیرتا ہوا، اعماق میں اتر جائے۔ یہ مگر شاذ و نادر ہوتا ہے۔ یہ رنگ ہیں جن سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور آگے نہیں دیکھ پاتیں۔ منیر نیازی کے الفاظ میں:
متاعِ چشم کھو گئی لباس کی تراش میں
بظاہرمولانا وہ مقاصد حاصل نہیں کر پائے جن کوانہوں نے اپناہدف قرار دیاتھا۔عمران خان اقتدار میں باقی ہیںاورالیکشن کے شجر پر بھی کوئی برگِ تازہ نمودارنہیں ہوا۔برسات ہوئی لیکن زمین کو سیراب نہ کر سکی۔ایوانِ حکومت کے مکین آسودہ ہیں کہ ان کا اقتدار قائم دائم ہے۔مو لانا نے جس دوٹوک لب و لہجے میںاپنے مطالبات پیش کیے اور ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کیا تھا، اس کا بھرم قائم نہیں رہ سکا۔ ان کے خطبات کا جوش ٹھنڈا پڑتا گیا۔ نعرہ مستانہ، ایک راہ رو کی صدائے دردناک میں بدل گیا۔ وہ اسلام آباد سے اس طرح رخصت ہوئے کہ بظاہر ان کا دامن خالی تھا۔ کارکنوں کوبھی وہ وعدہ فردا کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ وہ زبانِ حال سے یہ کہتے پائے گئے:
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
کوئی اس تجزیے کو قبول کرنا چاہے تو اس سے اختلاف مشکل ہے۔ سود و زیاں کے ظاہری پیمانے تو یہی بتا رہے ہیں مگر پھر وہی سوال کہ اُن کی وہ سیاسی بصیرت کیا ہوئی، جس کا شہرہ تھا؟ اگر ‘آزادی مارچ‘ محض ایک جذباتی فیصلہ تھا تو یہ ایک منطقی انجام کی طرف کیوں نہیں بڑھا؟ جذباتی اقدام کا منطقی انجام تصادم ہوتا ہے۔ مولانا نے جگ ہنسائی کو قبول کیا مگر اپنے کارکنوں کو بحفاظت واپس لے گئے۔ مارچ کی وجہ سے کسی ایک کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔ نہ حکومتی اہل کار کی، نہ جمعیت کے کارکن کی۔ تجزیے کی اس منزل میں چراغِ راہ گزر کی بے بسی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
ایک اور عقدہ بھی ہے جو ابھی حل نہیں ہو سکا۔ مولانا نے اکتوبر ہی میں مارچ پر کیوں اصرار کیا؟ یہ کوئی مذہبی تہوار تو نہیں تھا کہ ایک دن آگے پیچھے نہ ہو سکے۔ اپوزیشن جماعتیں اصرار کرتی رہیں مگر انہوں نے مان کر نہیں دیا۔ وہ کسی کی بات کو خاطر میں نہیں لائے۔ ایک نعرۂ مستانہ بلند کیا اور چل سو چل۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع منعقد کیا۔ خان صاحب اور قادری صاحب مل کر بھی اس جیسا تو کیا، اس کے بیس فیصد سے زیادہ افراد جمع نہیں کر سکے تھے۔ کیا یہ سب کچھ محض نشستن و گفتن و برخاستن کے لیے تھا؟ کیا مقتدر حلقے منظر کا حصہ نہیں تھے؟
ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ ان کا کنٹینر متحدہ اپوزیشن کا فورم بنا رہا۔ تمام قابلِ ذکر جماعتوں نے ان کے مطالبات کی حمایت کی۔ بڑی جماعتوں کو ان کی حکمتِ عملی سے اختلاف رہا لیکن ان کے اہداف سے سو فیصد اتفاق کیا گیا۔ اس کا برملا اظہار ہوا۔ یہ بات دنیا نے جان لی کہ خان صاحب کا استعفیٰ تنہا جمعیت علمائے اسلام کا نہیں، تمام نمائندہ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے۔ کیا لاکھ‘ ڈیڑھ لاکھ کا اجتماع اور اپوزیشن جماعتوں کا یوں ہم آواز ہونا، محض کھیل تماشا تھا؟ کیا یہ واقعہ مقتدر اداروں اور عالمی سطح پر کوئی تاثر قائم کیے بغیر گزر گیا ہو گا؟
سوال کچھ اور بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اس مرحلے پر گجرات کے چوہدری صاحبان، خان صاحب کے اعلانیہ ناقد بن کر کیوں سامنے آئے اور وہ بھی نواز شریف کے معاملے میں؟ یہی نہیں، انہوں نے حکومتی وفد سے الگ، مولانا کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ پھر چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے یہ بھی کہا کہ مولانا نے ہمارے کہنے پر دھرنا ختم کیا۔ چوہدری، مولانا کی طرح حقیقت پسند سیاست کی شہرت رکھتے ہیں۔ کیا ان کے کہنے پر مولانا نے فی سبیل اللہ دامن جھاڑ دیا ہو گا؟
کچھ لوگ مولانا فضل الرحمن کی بعض ضمنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جیسے وہ ایک مسلکی گروہ کے راہنما کے بجائے قومی سطح کے قائد بن کر ابھرے۔ انہوں نے اپنی جماعت کو متحرک کر دیا اور اس نوعیت کے چند دیگر فوائد۔ یہ بات درست ہونے کے باوجود، اتنے بڑے اقدام کے لیے جواز نہیں بنتی۔ اس سے پہلے پندرہ لانگ مارچ کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے بہت تھے۔ اس کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر کارکنوں کا تحرک (mobilization) اسی وقت ہو سکتا ہے جب کوئی بڑا مقصد پیشِ نظر ہو۔ یہ مقصد کیا صرف عمران خان کا استعفیٰ تھا جو پورا نہیں ہو سکا؟
اس بات سے اختلاف مشکل ہے کہ آج سیاسی بساط پر غیر معمولی حرکت ہے۔ مہرے اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ‘بادشاہ‘ کو اس کا اندازہ ہو چلا ہے کہ یہ مہرے جن اشاروں پر متحرک ہوتے ہیں، وہ بساط پر موجود ‘بادشاہ‘ کی فتح و شکست سے بے نیاز ہو رہے ہیں۔ ‘بادشاہ‘ اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ وہی بادشاہ ہے تو یہ بساط الٹ سکتی ہے۔ بادشاہ نے اگر مان لیا کہ دراصل وہ بھی ایک مہرہ ہی ہے تو ممکن ہے کہ یہ بساط بچھی رہے؛ تاہم ‘بادشاہ‘ کی حقیقت زیادہ نمایاں ہو جائے گی جو اس وقت بھی کچھ ایسی پردہ اخفا میں نہیں ہے۔ کیا دھرنے کے بغیر اس منظر کا اس طرح ابھرنا ممکن تھا؟
عمران خان اگر سیاست دان ہوتے تو جان پاتے کہ اُن کا فطری حلقہ اہلِ سیاست ہی ہیں۔ طاقت کے دیگر مراکز کے لیے ‘وزیر اعظم‘ ایک اجنبی ہوتا ہے اور کاروبارِ مملکت کا محض ایک پرزہ۔ ان کی نظر میں اس کی افادیت اسی وقت تک ہے جب تک وہ بطور پرزہ کام کرتا اور ایک بڑی مشین کا حصہ بنا رہتا ہے۔ جیسے ہی وہ ایک نئی مشین ایجاد کرنا چاہتا ہے جس میں اس کا کردار مرکزی ہوتا ہے، پہلے سے متحرک مشین کے کام میں خلل پڑتا ہے۔ یوں اس پرزے کا نکالا جانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ الا یہ کہ طاقت کے یہ مراکز مشین کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیں۔ روایت یہ ہے کہ یہاں مشین نہیں، پرزہ تبدیل ہوتا ہے۔
یہی اس ملک کا اصل المیہ ہے۔ سیاست اہلِ سیاست ہی کو زیبا ہے۔ اس سے بڑی غلط فہمی کوئی نہیں ہو سکتی کہ کوئی ادارہ، قومی مفادات کا محافظ اور عوامی نمائندوں کا محتسب ہوتا ہے۔ اہلِ سیاست کا احتساب عوام ہی کر سکتے ہیں اور وہی ہیں جو قومی مفاد کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اگر اہلِ سیاست کا ایک گروہ کوتاہی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اہلِ سیاست ہی کا کوئی دوسرا گروہ اس کی جگہ لے گا۔ یہ اصول جب تک مستحکم نہیں ہوتا، دائرے کا یہ سفر ختم نہیں ہو گا۔
عمران خان اگر اس بات کو سمجھ پاتے تو اہلِ سیاست کو اپنا فطری اتحادی سمجھتے نہ کہ ریاستی اداروں کو۔ نواز شریف صاحب نے اپنی اصلاح کی اور یہ جان لیا کہ ان کو اہلِ سیاست کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2014ء میں پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ دیا اور خان صاحب کا دھرنا ناکام ہو گیا۔ کیا عمران خان اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ یہ انجام طاقت کے اصل سے اختلاف ہے۔ یہ انجام اگر سامنے ہے تو خان صاحب کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ کیا ایسا ہونے جا رہا ہے؟
میرا احساس یہ ہے کہ یہ سب سوالات اس جانب راہنمائی کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی ناکامی یا کامیابی پر حتمی حکم لگانا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ یہ ایک جاری عمل ہے جو ابھی ختم نہیں ہوا۔ ملک کی سیاست اب وہ نہیں رہی جو دھرنے سے پہلے تھی۔ اگر 2020ء میں انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے یا اس سال قومی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو پھر آزادی مارچ سے شروع ہونے والا یہ عمل اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ پھر یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ مولانا زیرک سیاست دان ہیں یا نہیں۔
بشکریہ: دنیا