مشرق وسطی کے خطرناک رجحانات ۔۔۔ہماری دہلیز پر

مشرق وسطی کی سیاست کا آزار پاکستان کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے ، یہ فیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کواڑ مقفل کر لینے ہیں یا دروازے وا کر کے اس آزار کو گلے لگانا ہے۔ سوال یہ کہ داخلی سیاست کے گرداب میں پھنسے اس سماج کو کچھ احساس ہے کہ مشرق وسطی سے ہمارے لیے کون کون سے چلینجز پیدا ہو چکے ہیں ؟

مشرق وسطی کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ۔ پہلے یہاں دو حریف تھے: ایران اور سعودی عرب ۔ ہمارے لیے دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ایک برا امتحان ہوتا تھا ۔ اب وہاں ایک تیسرا حریف بھی پیدا ہو چکا ۔ یہ ترکی ہے۔ کیا ہمیں کچھ احساس ہے مشرق وسطی کی یہ سیاست ہمارے سماج اور ہماری ریاست پر کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے؟

ترکی نے شام میں گھس کر جو کارروائی کی ہے یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔ اس کو دیکھنے کے ایک سے زیادہ زاویے ہیں ۔ بظاہر ترکی اپنی سفارتی کامیابی پر نازاں ہے کہ اس نے کردوں کے خلاف ایک دوسرے ملک میں گھس کر کارروائی کی ہے اور امریکہ جیسی بڑی طاقت نے اس کی حمایت کی ہے۔ لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ جب صدام حسین نے کویت کے خلاف کارروائی کی تھی تو صدام حسین کو بھی امریکہ کی حمایت حاصل تھی ۔ بعد میں جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ترکی اس دلدل میں اتر چکا ہے ، ضروری نہیں اب ہر معاملہ اس کی توقع کے عین مطابق ہو۔

ترکی کا یہ اقدام ایک اور خبر بھی دے رہا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں میں ناکامی کے بعد مشرق وسطی کی سیاست میں ایک متحرک کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ترکوں کی ایک اپنی تاریخ ہے۔صدیوں انہوں نے ایک غیر معمولی قوت کے ساتھ حکمرانی کی ۔ سلطنت عثمانیہ کے بارے میں اردوان کی حساسیت میں جو حالیہ عرصے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے یہ بے سبب نہیں ۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ مسلم دنیا کی قیادت کے اب دو دعویدار نہیں رہے۔ اب ایک تیسرا دعویدار بھی آ چکا ہے اور اسے اپنے ماضی پر بڑا ناز بھی ہے۔

مشرق وسطی میں یہ کشمکش اب آ گے بڑھے گی ۔ کافی شہادتیں موجود ہیں کہ ترکی اور سعودی عرب ایک دوسرے کو باقاعدہ حریف سمجھ رہے ہیں ۔ دونوں ممالک نے اگر چہ ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک عمل رکھا ہے لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ترکی باقاعدہ ایک حریف بن کر سامنے آیا ہے۔

ایک طرف سعودی عرب کے قطر کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں دوسری جانب ترکی قطر میں اپنا فوجی اڈہ بنانے اور وہان مزید فوجی تعینات کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ قطر اور سعودیہ جتنے دور ہو رہے ہیں ترکی اور قطر اتنے ہی قریب آ رہے ہیں ۔ ترکی اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے واضح طور پر مشرق وسطی کی سیاست میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے ۔ وہ خلیج فارس میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے ۔ سعودی عرب جواب میں ترکی پر اخوان کی حمایت کا الزام لگا چکا ہے۔ مراکش اور اردن کا حتمی فیصلہ ابھی آنا ہے لیکن اس کشمکش میں وہ اپنا وزن سعودی پلڑے میں نہیں ڈال رہے۔

یہ صف بندی محض مشرق وسطی تک محدود نہیں رہے گی اس کے اثرات پاکستان تک بھی آ سکتے ہیں ۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ۔ 2013ء کے PEW گلوبل سروے کے مطابق ترکی مسلم دنیا کا وہ ملک ہیں جہاں سعودی عرب کے بارے میںسب سے زیادہ منفی رائے پائی جاتی ہے۔ ( شاید ایران میں سروے نہ کیا گیا ہو) ۔ دوسری طرف یہ بھی یاد رہے کہ یہ سعودی عرب تھا جس کی مخالفت کی وجہ سے ترکی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے سے محروم رہ گیا تھا ۔ سعودیہ میں ترکی ڈراموں پر پابندی کا احوال بھی اب کوئی راز نہیں رہا ۔

ایران اور سعودی عرب کے بر عکس پاکستانی سماج کی مذہبی ساخت ایسی ہے کہ اس صف بندی میں کسی ایک ملک کا ساتھ دینا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ۔ اس سے خوفناک فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں پولرائزیشن پہلے ہی اپنے عروج پر ہے۔ ایک ذرا سی چنگاری بھڑکی تو الائو دہک جائیں گے۔ہمیں ابھی سے ان خطرات کے تدارک کے لیے متحرک ہونا ہو گا۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم اپنی داخلی سیاست کے مسائل سے بالاتر ہو کر سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہم نے ان مسائل کو امت کا تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی تو حل تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا ۔اسے نیشن سٹیٹ کے تناظر میں سمجھنا اور حل کرنا ہو گا۔لیکن کیا ہم امت اور نیشن سٹیٹ کے تصورات میں توازن اور اعتدال لانے کے لیے فکری طور پر تیار ہیں؟

مشرق وسطی کی معیشت کی تباہی میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں ۔ اسی آئی ایم ایف کے پروگرامز سے مشرق وسطی کو کیا حاصل ہوا کہ اب ہم اسی ماڈل کو یہاں لاگو کیے جا رہے ہیں ؟ کیا لازم ہے کہ اپنے حصے کی غلطیاں کر کے پچھتایا جائے؟کیا دوسروں کی غلطیوں سے کچھ سیکھا نہیں جا سکتا ؟ ڈاکٹر رضا باقر ہمارے مسیحا تو بن چکے لیکن کیا ہمیں معلوم ہے مصر میں انہوں نے کیسی مسیحائی کی تھی؟ جب مصر نے آئی ایم ایف سے معاملہ کیا تو دو سال میں اس کی کرنسی میں تین گنا کمی ہو گئی۔ یہی مشرق وسطی کا ماڈل اب ہم نے اپنایا ہوا ہے اور ہمیں بتایا جا رہا ہے سابق حکومت نے روپے کو مصنوعی سہارا دیا ہوا تھا ہم اسے اس کی حقیقی ’’ اوقات‘‘ پر لائے ہیں۔

مشرق وسطی کی سیاست کا ایک اور خطرناک رجحان وہاں کی پولرائزیشن اور انتقال اقتدار کے لیے عوامی رد عمل کی چھتری تلے کی گئی وارداتیں ہیں ۔ یہی رجحانات اب پاکستانی سماج کی دہلیز پر دستک دے رہے ہیں ۔ خوفناک پولرائزیشن کی چنگاری تو ہے ہی ، سیاسی عدم استحکام کا خطرہ بھی مسلسل منڈ لا رہا ہے۔ ایک دھرنے کا آزار ختم نہیں ہوتا تو دوسرا دھرنا سر پر کھڑا ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں معاشی استحکام حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

ہم اس راہ پر شعوری فیصلے کے تحت جا رہے ہیں یا نا دانستگی میں گڑھے کی طرف رواں دواں ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے