میاں صاحب جان ہے تو جہان ہے

آخر کار نواز شریف لندن پہنچ گئے وہ جو کہتے تھے اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی کہ جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا وہ اکبر الہ آبادی بھی ہوتے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے کہ یہ کیا اتنی انقلابی سوچ اور نعروں کے بعد اتنی پرسرار خاموشی کیسے ممکن لیکن وہ الہ آبادی بھی سوچتے کہ میاں صاحب سمجھ دار ہیں کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے اور اہل غیرت شیرت بعد کی باتیں ہیں ؟ واہ جس بھائی پر اسٹبلشمنٹ کا ہونے کا دھبہ تھا جو کہ خود پارٹی کے رہنماوں نے ہی لگایا تھآ اور جسکو کوٹ لکھپت جیل میں کوشش کے باوجود میاں صاحب نے ملنے سے انکار کیا تھا وہی بھائی ہمسفر ہے۔

کچھ بھائیوں نے اپنے تحریروں میں تو سقراط بنا دیا تھا آج اگر سقراط دیکھ لے کہ میاں صاحب جن کو اس سے تشبیہ دی گئی تھی وہ کیسے بیرون ملک انتہائی شدید بیماری میں اپنے قدموں پر چل کر گئے ہیں وہ سقراط جس نے ملک بدر ہونے پر زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگایا وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا کہ اور سوچتا میاں صاحب سمجھ دار نکلے کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔اور انکو سقراط بنانے والے بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ والا پہلو ہمارے ذہن میں کیوں نہ آیا کہ جان ہے تو جہاں ہے۔مگر تسلی رکھیں یہ دانشوار کبھی نہیں کہیں گے کہ ہم غلط تھے۔ طارق بن زیاد ہوتے جنھوں نے ساری کشتیاں جلا دیں تھیں وہ جولائی اٹھارہ میں ہوتے تو سوچتے کہ کوئی تو انکے نقش قدم پر چلا مگر آج ہوتے تو سب دیکھ کر ضرور سوچتے کہ یہ بھی تو راستہ تھا کیا ضرورت ہے ساری کشتیاں جلا کر جان گنوانے کی کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔

اور وہ صحافی حضرات جو صرف ایک ماہ پہلے کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف سے این آر او مانگ رہے ہیں کہ بس کسی طرح یہاں سے چلے جائیں وہ بھی سوچ تو رہیں ہونگے کہ نواز شریف نے اپنے سب سے بڑے حریف عمران خان کو این آر او دیا تو کیوں دیا پھر خود ہی نتیجہ نکالا ہوگا کہ بیمار ہیں چلے گئے کونسی قیامت آگئی کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتے یہ صحافی اپنے غلط تجزیہ کی معافی مانگیں گے۔ ہمار کچھ نظریاتی لبرل جو نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف بہت بڑا انقلابی سمجھتے تھے اور امیدیں لگا بیٹھے تھے اور سمجھتے تھے کہ میاں صاحب مرجائیں گے بیرون ملک نہیں جائیں گے وہ کچھ مایوس ہوئے ہیں کیونکہ یہ کبھی نہیں سمجھتے تھے کہ جان ہے تو جہاں ہے ان کو ہم بتادیتے ہیں کہ پریشان نہ ہوں جان ہے تو جہاں ہے یہ اصول اور لڑائیاں بھی تو تبھی چلیں گی جب جان ہو گی۔

جب مرضی ہو تو اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر وطن آجائیں اور سیاست شروع کردیں کوئی مضائقہ نہیں اور جب بولنے کا وقت ہو تو خاموشی اختیار کرلیں نہ صرف نواز شریف خاموش ہو جائیں بلکہ انکی بیٹی بھی خاموش ہوجائے یہ کیسے اصول ہیں کیسی لڑائی ہے جو ماحول اور موسم کے مطابق چلتی ہے اور پرویز رشید یہ فرمائیں کہ مریم بی بی اس لیے خاموش ہیں کیونکہ جب وہ بولتی ہیں تو آگ لگ جاتی ہے کوئی پوچھے کہ لگتی ہے تو لگے اصول پر کیسا سمجوتہ اور نظریہ پر کیسی خاموشی۔۔۔اوہ ہاں یا د آیا کہ خاموشی اس لیے اختیار کی جاتی ہے کہ جن سے جنگ کرنے نکلے ہیں انھیں کے ناراض ہونے کا خدشہ ہے یا جن کے سامنے مقدمات ہیں تو شائد خاموش رہ کر کوئی فیور حاصل کی جا سکتی ہے۔ ویسے ہی جان ہلقان کرنے کا کیا فائدہ کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔

اور رہ گئی شہباز اور نواز کی الگ سیاست کا ناٹک تو اس کا اختتام ایک قصے سے کسی محلے میں دو بندوں کی لڑائی ہو گئی ان میں سے ایک غصے میں ڈنڈا اٹھانے گھر آیا اور موٹا ڈنڈا لیا اور ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو کہا کہ میں جب ڈنڈا ماروں اور مزید لڑائی کروں تو تم چھڑا لینا اس طرح غصے میں بھرا وہ بندہ باہرآیا تمام محلے والے اسکی حالت اور ہاتھ میں ڈنڈا دیکھ کر گھبرا گئے اور سوچا کہ آج تو دوسرے بندے کا سر کھلے ہی کھلے۔ آدمی نے ڈنڈا اوپر اٹھایا اور جانتے بوجتھے ڈنڈا سر کے پا س لاکر ترچھا کیا تاکہ یوں لگے کہ نشانہ چوک گیا ورنہ تو بندہ گیا تھا۔ اس طرح منصوبے کے تحت دوسرے بھائی نے لڑائی ختم کروائی اور معاملہ رفع دفع بھی ہوگیا انکی دھاک بھی بیٹھ گئی اور اگر ڈنڈا لگ جاتا بندہ مر جاتا تو مارنے والے نے کونسا بچنا تھا پولیس لے جاتی سزا ہوتی مگر انھوں نے سوچا دونوں بھائی اس طرح کی منصوبہ بندی کریں کہ مطلب بھی نکل آئے اور نقصان بھی نہ ہو کیونکہ جان ہے تو جہان ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے