‏مچھلی کا بچہ

‏آئن سٹائن نے کہا تھا "‏اگر آپ مچھلی کے بچے کی قابلیت ایک درخت پر چڑھنے کے امتحان سے جانچیں گے تو وہ یہ کبھی نہیں کر پائے گا اور اس بنا پر پوری عمر خود کو نالائق سمجھتا رہے گا۔

‏ہر بچہ ایک الگ طرح کی ذہانت اور صلاحیت لیکر اس دنیا ‏میں آتا ہے سب کے اندر اول آنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، ‏یہ بات میں فقط مروجہ تعلیمی نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے کہہ رہا ہوں ورنہ ہر بچہ کہیں نا کہیں کسی نا کسی شعبہ میں نمبر ون ہو سکتا ہے، میں ریاضی میں زرا اچھا نہیں تھا مگر پورے اسکول میں پینسلوں اور رولرز کے ساتھ میرے جیسا ڈیسک کوئی نہیں بجاتا تھا اپنے اسی شوق اور قابلیت کو مد نظر رکھتے ہوۓ جب ابا حضور سے ڈرم سیٹ بجانے کی باقاعدہ تربیت لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو جواب ملا "کیا آپ میراثی بننا چاہتے ہیں؟”

‏زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ شوق اور پیشے بھی تضحیک اور توقیر کی بنیاد پر تقسیم ہیں، مجھے معاشرہ میں عزت کمانے کے لیے مخصوص نظام تعلیم سے گذر کر کچھ خاص پیشوں میں سے انتخاب کرنا پڑے گا کیوں کہ اگر میں نے شوق کی بنیاد پر کوئی ایسا ویسا پیشہ اختیار کیا تو ہمارے خاندانی وقار پر ضرب پڑ سکتی ہے اورمیرے والد کو گویے کا باپ یا میراثی کے ابا کہہ کر پکارے جانے کا بھی شدید امکان ہے۔

‏تعلیم اور بعد ازاں پیشہ ورانہ زندگی سے نالاں ہونے کی کہانی کسی اور وقت سہی مگر اسوقت یہ کہنا مقصود ہے کہ پتا نہیں ہماری نسل بہت سخت جان تھی یا بہت زود فراموش اور بے فکری کہ تمام تر تعلیمی دباؤ اور شوق پر قدغنوں کے باوجود کبھی بھی دل میں خودکشی کا خیال تک نہیں آیا نا اپنے کسی ساتھی یا کسی دوست سے ایسا خیال و ارادہ سننے کو ملا، نئی نسل شاید ذیادہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ذیادہ حساس بھی ہے کہ خالی گریڈز اور نمبرز اچھے نا آنے کی وجہ سے ناصرف مرنے پر آمادہ نظر آتی ہے بلکہ اس منفی ارادہ کو عملی جامہ پہنانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔

‏اخبارات کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ ایک سال میں تعلیمی میدان میں ناکامی کی بنیاد پر خودکشی کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد پندرہ ہے قتل و غارت گری اور دہشتگردی میں ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کی خبروں سے پٹے ہوۓ اخبارات میں گو کہ یہ تعداد بہت معمولی سی نظر آتی ہے مگر صرف یہ سوچیے ان پندرہ میں سےکوئ ایک آپ کا اپنا بچہ ہوتا تو یہ صورتحال آپ کو بھی کو اتنی ہی گھمبیر اور خوفناک نظر آتی جتنی کہ مجھے دکھ رہی ہے، ان تمام کیسز میں مشترکہ وجہ تعلیمی ناکامی ہے مگر خودکشی کے اسباب جدا ہیں جن میں والدین کا اچھے گریڈز کے لیے دباؤ، اچھی اور نامور یونیورسٹی اور کالج میں داخلہ ملنے میں ناکامی، گھرانے اور خاندان کے دیگر ذہین بچوں سے اپنے بچے کا ہمہ وقت موازنہ، پڑھائ کے معاملہ میں بیجا و بے انتہا سختی اور بچے کی پڑھائ اور کرئیر کو خاندانی وقار کا مسئلہ بنا لینے جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔

‏آپ کا بچہ مستقبل کا معمار ہے جو وہ ایک ڈاکٹر اور انجیئر یا  چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کے علاوہ ایک گلوکار، اداکار، مصور، کرکٹر یا فقط ایک اچھے شیف یا ہئیر ڈریسر کی صورت میں بھی ہو سکتا اپنی نا آسودہ خواہشات اور خاندانی وقار کے تحفظ کا بوجھ اس پر ڈالنے کے بجاۓ اسکی صلاحیتوں کھوجنے میں اسکی مدد کیجیے فیصلہ انکے شوق اور جذبات کو مدنظر رکھ کر کیجیے نا کہ پیشوں میں تضحیک و توقیر کے فرق کی بنیاد پر۔

‏بچے کو جیت اور کامیابی کے لیے تیار کیجیے مگر ہار اور ناکامی کو ایک سبق کی طرح قبول کرنے کی وسعت سے بھی روشناس کراتے رہیے، اسے احساس دلاتے رہیے کہ نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو ہمارے دل میں تمہاری محبت اور عزت میں کبھی کوئ کمی نہیں آئیگی اور ہم بہر صورت تمہارے ساتھ کھڑے رہینگے، اسکی خواہشات کو کامیابی اور اچھے گریڈز سے مشروط مت کیجیے بلکہ یہ فیصلہ اس خواہش کی گئ چیز کے بچے پر پڑنے والے اثرات اور نفع و نقصان کی بنیاد پر کیجیے اور اس پر اپنے نکتہ نظر سے اسے آگاہ بھی ضرور کیجیے۔ 

‏میری رائے میں یہ فیصلہ کرنا انتہائی آسان ہے کہ آپ کے لیے  خاندانی وقار اور گریڈز کی دوڑ میں آپکے بچے کا نمایاں نظر آنا اہم ہے یا اسکا خوش اور زندہ رہنا، اپنے بچوں سے غیر نصابی موضوعات پرگفتگو کرتے رہنے کو معمول بنائیے تاکہ آپ انکے جذبات و خیالات کا ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات سے بی واقف رہ سکیں کہ کہیں آپ نے بھی کسی مچھلی کے بچے کو درخت پر چڑھنے والےامتحان میں تو مبتلا نہیں کر رکھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے