آزادکشمیر عدلیہ کے متنازع بننے کی کہانی

‎عدلیہ ہر دور اور ہر ملک میں میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے – عام فریقین یا عام آدمی اور حکومت کے درمیان متنازع امور کو ایک مقررہ طریقہ کار کے مطابق حل کرنے والے سسٹم کو عدلیہ کہتے ہیں – یہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے جج کہلاتے ہیں-

‎ماتحت سطح پر تو ججوں کی تقرری کے لیے امتحان کا ایک کڑا نظام رائج ہے ، جبکہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کا فیصلہ انتظامی نوعیت کا ہوتا ہے – اس کے لیے کوئی پروسیجر یا رولز نہیں ہیں- آزاد کشمیر میں پریکٹس یہ ہے آزاد کشمیر کے ہائی کورٹ میں جج کی تقرری کی بنیاد چیف جسٹس ہائی کورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ، اور سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کا بنایا ہوا پینل بنیاد ہوتا ہے ، جو حکومت کی سفارش کے ساتھ بذریعہ صدر ریاست ، چئیر مین کشمیر کونسل کی ہدایت ، جس کو آئینی زبان میں ”ایڈوائس” کہتے ہیں پر ، صدر کی منظوری سے تقرری عمل میں لائی جاتی ہے –

چیف جسٹس صاحبان ہائی کورٹ میں تقرری کے لئےکم از کم تین سال کی سروس کے حامل سیشن جج اور دس سال کی وکالت کا تجربہ اور ”اہلیت ” رکھنے والے وکیل کی تقرری کی سفارش کر سکتے ہیں ، جبکہ سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے پانچ سال ہائی کورٹ کے جج کا تجربہ یا پندرہ سال وکالت کا تجربہ کے حامل شخص کی تقرری کی سفارش کر سکتے ہیں -عام طور پر چیف جسٹس صاحبان اس تجربہ کے حامل شخص کے ساتھ لفظ” اہلیت اور استعداد “بھی لکھ دیتے ہیں گوکہ آئین یا کسی قانون میں اس کا کوئی ذکر نہیں – جو سارے پراسیس کو مذاق بنا دیتاہے-

‎لفظ “ اہلیت” ایک ہمہ گیر صفات کا حامل ہے- ا س کا آئین کے اندر کوئی معیار یا تشریح نہیں کی گئی، یہ صرف اس پراسیس میں شامل اتھارٹیز کی صوابدید کا محتاج ہے – انصاف کے معیار پر پورا اترنے کا جس اتھارٹی کا جو تصور اور ظرف ہوتا ہے ، وہی اہلیت کہلاتا ہے – اور قوم کو اسی صوابدید کی سزا یا جزا اس دنیا میں اور سفارش کرنے والے کو کبھی کبھی اسی دنیا میں لیکن آخرت میں تو یقینآبھگتنی پڑتی ہے -اس میں سب سے زیادہ جزا یافت یا سزا وار ، چیف جسٹس ہوتے ہیں جو بنیادی اینٹ رکھتے ہیں-

‎آزاد کشمیر کی عدلیہ کی تباہی کا باعث آزاد کشمیر کونسل بنی ہے جو جانے اور انجانے ہاتھوں سے مل کر تقرریاں کرواتی رہی جس کی سزا یہاں کے ادارے اور لوگ بھگتے رہے ہیں اور بد نامی اور بد ظنی ریاست پاکستان کے کھاتے میں پڑتی رہی – اس کی بنیاد پہلی بار 1991میں پڑی جو اب تک ختم ‎ہونے کو نہیں آرہی ، حالانکہ اس حوالے سے کئی توصیفی اورتادیبی عدالتی نظائر مشعل راہ ہیں ، اس کے ساتھ ہی برادریوں ، سیاسی جماعتوں اور لین دین کا عمل دخل بھی شروع ہوگیا –

میں کسی جج ، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، کا احتراما نام لیے بغیر ، ذاتی علم اور ریکارڈ کی روشنی میں اختصار کے ساتھ چند واقعات نظر قارئین کرتا ہوں –

کشمیر‎ کونسل نے 5 ستمبر 1990 کو ہائی کورٹ کے ایک جج کی بطور جج سپریم کورٹ ، اس کی جگہ ہائی کورٹ میں ایک مستقل اور ایک ایڈیشنل جج کی تقرری کی ایڈ وائس بھیجی – ایڈیشنل جج کی تقرری کا معیار بھی مستقل تقرری جیسا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہ ایک خاص مدت تک خالی اسامی کے خلاف ہوتی ہے – اس ایڈوائس کے تحت ایڈیشنل جج کی تقرری کے حامل شخص کا نام چیف جسٹس صاحبان نے تجویز نہیں کیا تھا، جبکہ اس وقت کے صدر ریاست نے سیکریٹری قانون کے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے نو ٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی کہ انہوں نے چیف جسٹس سے مشورہ کرلیا تھا ، جو صریحآ غلط بیانی تھی-

اس کے ساتھ ہی اس وقت کی حکومت کی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سیشن جج اور ایک سیکریٹری قانون کی بطور ایڈیشنل جج ہائی کورٹ کے تقرری کی گئی حالانکہ نہ ہائی کورٹ میں کوئی اسامی خالی تھی نہ ہی چیف جسٹس صاحبان نے ایسی تجویز دی تھی -اس کے برعکس جس مستقل جج کی تقرری کی ایڈوائس بھیجی گئی تھی ، اس پر ایک برادری اور سیاسی جماعت کی مداخلت پر اس وقت کی حکومت ختم ہونے تک عمل نہیں ہونے دیا گیا ، کیونکہ اس شخص کا تعلق کسی بڑی برادری اور حکو متی دھڑے سے نہیں تھا –

ایڈیشنل ججوں کی تقرری کے خلاف ہائی کورٹ میں اس بناء پر رٹ دائر ہوئی کہ ان کا نام چیف جسٹسز نے تجویز نہیں کیا تھا – رٹ ایک ایڈیشنل جج کی حد تک اس بنا پر خارج کی گئی کہ صدر ریاست نے اس ایڈوائس کے مکتوب پر لکھا تھا کہ انہوں نے چیف جسٹسز سے مشورہ کر لیا تھا جبکہ باقی دو کی تقرری کالعدم قرار دی گئی-

‎اس کے بعد کشمیر کونسل نے ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج کی مستقل تقرری کا راستہ ہموار کرنے کے لئے سیاسی اثر رسوخ کی بناء پر مورخہ 20 جنوری 1992 ایک ایڈوائس جاری کی جس کے تحت سپریم کورٹ کے ایک مستقل جج کو چیف الیکشن کمشنر ، اس اسامی کے خالی ہونے پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ میں جج جبکہ ان کی خالی ہونے والی اسامی پر سینئیر جج کو بطور چیف جسٹس اور اس خالی اسامی پر ایڈیشنل جج کی مستقل جج کے طور تقرری کی ہدایت کی –

چیف الیکشن کمشنر مقرر ہونے والے جج کے اعتراض پر کہ ان کو سپریم کورٹ سے مستقل فارغ کر کے چیف الیکشن کمشنر مقرر نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے یہ ایڈوائس واپس کی گئی ، اعتراض درست تھا ، اس حوالے سے ایڈوائس غلط تھی ، یہ معاملہ یہیں ختم ہو گیا – یہ ایڈوائس بھی ایک جج کے بڑی برادری سے تعلق کے زور پر عمل میں لائی گئی تھی اور دوسری برادری کے زور پر اسے بے اثر بنایا گیا –

‎اس ایڈیشنل جج نے اپنی مستقل تقرری کی خاطر جگہ خالی کرانے کے لیے اپنے ایک ساتھی جج کے خلاف درخواست بازی، ریفرنس اور رٹوں کاسلسلہ شروع کرایا لیکن کچھ نہ حاصل ہوسکا – ‎اس کے بعدججوں کی تقرری کو متنازع بنانے اور چیلنج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا –

‎وہ صاحب جب بطور ایڈیشنل جج مدت تقرری مکمل ہونے پر فارغ ہوئے ، ان کے لئے برادری سیاست کے زور پر ہائی کورٹ کے ہم پلہ شریعت کورٹ قائم کرکے ان کی تقرری وہاں کی گئی اور 1997 میں ہائی کورٹ میں ایک مستقل اسامی کے خالی ہونے پر وہاں ان کی تقرری کے بعد ہائی کورٹ میں تھوڑا سا عرصہ سکوں سے گزرا لیکن شریعت کورٹ میں بھرتیوں کی بھرمار شروع ہوگئی جس نے لیگل سسٹم کو غیر متوازن کردیا – ساتھ ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان اختیارات کی سرد جنگ جاری رہی ، جو ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لیتی-

‎ سال 2006 کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بے ہنگم تقرریوں کا نیا دور شروع ہوا جس کے اثرات اور بہت دیر تک جاری رہیں گے- اس سال سپریم کورٹ میں محض بائیس دن سروس کے جج کو اس سے سات سال سینئیر جج کے ہوتے ہوئے کونسل نے پس پردہ مخلوق کے کہنے پر ان کی پسندیدہ سیاسی جماعت کو الیکشن جتوانے کے صلہ میں ، بطور چیف جسٹس تقرری کی ایڈوائس جاری کرائی – پھر ان صاحب کی مشاورت سے کونسل نے ہائی کورٹ میں 2007 میں دو ججوں کی تقرری کی ایڈوائس جاری کی – اس وقت کے صدر نے مجھے ذاتی طور کہا کہ کونسل نے پہلے کچھ ایڈ وائس بھیجی جو پس پردہ مخلوق کے کسی اہلکار نے مجھ سے واپس لی اور دوسرے دن دوسری لاکر دی –

‎اس واردات کے خلاف شدید عوامی رد عمل کے نتیجے میں ، اس وقت کے چیف جسٹس نے اسی مخلوق کے دباؤ پر اس کے خلاف ریفرنس کی رپورٹ کے بعد 2010 میں استعفی دیا ، جس نے یہ تقرری کرائی تھی – ان کے فارغ ہونے کے بعد ان کی سفارش کی بنیاد پر جاری کی گئی ایڈوائس پر تعینات کیے گئے ہائی کورٹ کے دو جج بھی عدالتی فیصلے کے ذریعہ اس وجہ کی بناء پر بر طرف کیے گئے کہ ان کی تقرری کی سفارش سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے ایک بار چیف جسٹس ہائیکورٹ اور دوسری بار چیف جسٹس سپریم کورٹ کی حیثیت با معنی نہیں سمجھی جا سکتی –

‎ اگلابحران 2018 -19 میں آیا جب ہائی کورٹ میں ایک بار ہی پانچ ججوں کی تقرری کو مختلف قانونی وجوہات کی بناء پرچیلنج کیا گیا جس میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ ان ججوں کی تقرری کی ایڈوائس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی متفقہ مشاورت سے جاری نہیں کی گئی ہے- یہ کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان گشت کرتے ہوئے بالآخر ہائی کورٹ نے ایڈوائس کو مکمل طور ناقص نہیں سمجھا، البتہ ایک جج کی تقرری کو اس بناء پر کالعدم قرار دیا کہ وہ آئین کے تحت تجربہ کے مقررہ معیار پر پورا نہیں اترتے –

میرے خیال میں اب یہ سپریم کورٹ کے رو برو زیر اپیل ہے یا ہائی کورٹ میں ہی پینانگ ہے – مناسب تو یہ تھا کہ جسٹس علوی اور ان ججوں کے کیس کو ایک ہی بنچ اکٹھا سنتا کیونکہ سب میں ایک ہی پوائنٹ ایڈوائس کا زیر تنازع ہیں ان کو الگ کرنا عدالتی روایات کے خلاف ہے –

‎ان تقرریوں کو پریس میں برادری کی بناء پر بندر بانٹ کے طور بہت ہی اچھالا گیا اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے – ‎مقرر ہونے والا ہر کوئی جج کسی نہ کسی برادری ، کنبے قبیلے کا ہی ہو سکتا ‎ہے، اس سے باہر نہیں ہو سکتا اور آزاد کشمیر میں یہ وبا عام ہے -اس کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ تعینات ہونے والا جج اس کے اہل اور معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں ، اس کی تقرری کے پراسیس میں شامل اتھارٹیز کی نیت کی” سکینگ “ اللہ ہی کر سکتا ہے ، انسانوں کے پاس قیاس آرائیاں ہی ہیں – تاہم ججوں کے بحیثیت جج طرز عمل سے ان کی تقرری اور تقرری کے پراسیس میں شامل لوگوں کے عمل کو جانچا جا سکتا ہے – جس کی جزا ان کو اس دنیا میں لوگوں کی تعریف و توصیف سے اور سزا تنقید اور ملامت کے طور ملتی ہے جبکہ آخرت میں بھی جزا و سزا ضرور ہوگی –

‎اس تسلسل میں فی الحال آخری کیس چیف جسٹس ہائی کورٹ جناب آفتاب علوی صاحب کا ہے جن کی تقرری بطور جج ہائی کورٹ ڈویژن بنچ کے ایک فاضل جج نے تاریخ ابتدائی تقرری سے اس بناء پر کالعدم قرار دی کہ ان کی تقرری کی ایڈوائس بطور جج ہائی کورٹ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سفارش پر نہیں ہوئی تھی بلکہ ایڈوائس کے بعد اور تقرری کے نو ٹیفکیشن سے پہلے صدر ریاست نے چیف جسٹس سے مشورہ کیا تھا ، جنہوں نے لکھا تھا کہ وہ جج ہائی کورٹ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں ، جبکہ بنچ کے دوسرے فاضل جج نے اس ایڈوائس / تقرری کو جائز قرار دیا – ‎اختلافی فیصلہ ہونے کی وجہ سے نتیجتآ کیس کو چیف جسٹس کے رو بر پیش کیا گیا جو تیسرے جج کے پاس بھیج سکتے تھے –

‎مبینہ طور اس کیس میں سپریم کورٹ نے اپیل کے پہلے مرحلے میں ہائی کورٹ کو کیس پنتالیس د ن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی جس میں وقتآ فوقتآ توسیع بھی حاصل کی جاتی رہی – اختلافی فیصلہ کے بعد جب مدت میں مزید توسیع کے لئے تحریک کی گئی تو سپریم کورٹ نے از خود سینیئر جج کو بطور ریفری جج مقرر کرنے کی ہدایت کے ساتھ پندرہ دن کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی- اس میں سپریم کورٹ کو توسیع دینے یا نہ دینے کی حد تک ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا ، تیسرے جج یا ججزکو بطور ریفری جج مقر کرنا آئین کی دفعہ 43 – 1-A اور ہائی کورٹ کے قواعد کے قاعدہ 21 کے تحت چیف جسٹس ہائی کورٹ کا انتظامی اختیار تھا عدالتی نہیں ، جس میں اپیل کی صورت میں سپریم کورٹ کو رد بدل کا اختیار ہو سکتا تھا –

‎میری اطلاع کے مطابق جس جج کو سپریم کورٹ نے اختلاف رائے کے بعد ریفری جج ( یہ غلط العوام ہے ، جبکہ میری د انست کے مطابق تیسرا جج یا ججز کا بنچ ہی قانونی اصطلاح ہے) اس نے پہلے ہی ذاتی مفاد کے خدشہ کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ مقدمہ سننے سے معذرت کی تھی، ممکن ہے یہ بات سپریم کورٹ کی نوٹس میں نہ لائی گئی ہو، ورنہ جب کوئی جب کیس سننے سے معذرت کرتا ہے وہ کیس اس کے پاس بھیجا ہی نہیں جا سکتا – جج کو اس کی آزادانہ مرضی کے بغیر کوئی کیس سننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا-

ریفری جج سپریم کورٹ کے حکم پر ایسا کرنے کا پابند تھے ، لیکن اپنی پوزیشن واضع بھی کر سکتے تھے ، جو موقف پہلے لیا تھا اس کو تقویت ملتی – انہوں نے اچھا کیا تھا، انصاف اور اچھے طرز عمل کا تقاضا یہی تھا – گوکہ حلف کا پابند جج اگر ایسا نہ بھی کرے تو کوئی برائی نہیں ، کیونکہ وہ حلف کے بعد اپنے اللہ اور ضمیر کو جواب دہ ہوتا ہے اور کسی کو نہیں –

(خیال رہے کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کا ہو یا سپریم ‎کورٹ کا باقی ساتھی ججوں کے مقابل میں اسے صرف دو اضافی اختیار ہیں ایک کیسز کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دینا اور دوسرا متعلقہ ادارے کے ملازمین کا آفیسر مجاز ہونا – اختیارات سب کے مساوی ہوتے ہیں – فیڈرل طرز کی حکومت کے برعکس ہماری سپریم کورٹ صرف اپیلیٹ کورٹ ہے، عدلیہ کی سربراہ نہیں ، اسی لیے میری یہ غیر مبہم رائے چلی آرہی ہے کہ آزاد کشمیر میں بنگلہ دیش کی طرز پر صرف سپریم کورٹ کا ادارہ ہونا چاہیے، جس کے ہائی کورٹ بنچ آف سپریم کورٹ اور اپیلیٹ بنچ آف سپریم کورٹ ہوں اور اپیلیٹ بنچ میں صرف ہائی کورٹ بنچ کے ججوں میں ہی سے سینیارٹی کی بنیاد پر تقرری ہونی چاہیے ، ماتحت عدلیہ اور وکلاء کی تقرری صرف ہائی کورٹ بنچ میں ہونی چاہیے- اس سے بہت سی بے اعتدالیاں جو مدت الایام سے دیکھنے میں آرہی ہیں ، خود بخود ختم ہو جائیں گی اورسپریم کورٹ جو بڑا نام ہے ، وہ سربراہ ہو جائے گی -)

‎ریفر ی جج نے اس جج صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے‎ جسٹس علوی کی تقرری کو کالعدم قرار دیا ، اس طرح 2:1 کے مقابلےمیں ، تابع اپیل ، ابتدائی تقرری بطور جج اور بحیثیت چیف جسٹس ، شروع دن سے بلا اختیار اور کالعدم قرار پائی-

‎ گوکہ بطور جج میری رائے اس کیس کے مخصوص حالات کے پیش نظر ، درج زیل وجوہات کی بناء پر مختلف ہو سکتی تھی ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کونسل دو چیف جسٹس صاحبان کا ان کے نام پر اتفاق ہوئے بغیر ان کے حق میں ایڈوائس جاری نہیں کر سکتی تھی –

‎اگر کونسل کے نزدیک چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پینل میں ان کا نام ہونے کی وجہ سے یہ اہلیت کی بناء پر بطور جج تقرری کے حقدار تھے ، تو کونسل کو براہ راست یا بذریعہ صدر ریاست ان کی موزونیت کے بارے میں چیف جسٹس ہائی کورٹ سے رائے لے کر ایڈ وائس جاری کرنا چاہیے تھی ، نہ کہ مسلمہ اصولوں کے خلاف – ایڈوائس اسی وقت جائز اور با معنی ہو سکتی ہے جب یہ ریکارڈ ، چیف جسٹس صاحبان کی رائے اور باقی ضروری انفارمیشن کی روشنی میں دی جائے- اگر اس میں سے چیف جسٹس کی رائے موجود ہی نہ ہو تو یہ آئینی عمل نہیں کہا جاسکتا –

ان حالات میں صدر پر لازم تھا کہ یہ ایڈوائس اسی اعتراض کے ساتھ واپس کرتے اور کونسل ان سے یا چیف جسٹس سے دوبارہ پینل طلب کرتے – اسی سقم کی وجہ سے صدر ریاست نے ایڈوائس وصول ہونے کے بعد چیف جسٹس سے رائے طلب کی تھی تاکہ اس آئینی سقم کو دور کیا جائے، جس کو ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے پذیرائی نہیں بخشی ، اس لئے میں ان کی رائے سے بوجوہ اختلاف ضرور کرتا ہوں ، لیکن اس کو غلط نہیں سمجھتا –

‎ اگر آئین کے الفاظ کو دیکھا جائے تو ترتیب یہی ہی کہ “ President shall appoint on the advice of council AFTER CONSULTATION WITH CHIEF JUSTICE .
جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ “ ایڈوائس کے بعد چیف جسٹس سے مشاورت ہوگی “ – آئین کے الفاظ اور روح درست ہے، لیکن ترتیب درست نہیں کیونکہ اس سے مشاورت کا عمل فوت ہو جاتا ہے – اس سلسلے میں جو پریکٹس اپنائی گئی ہے وہ درست ہے – میرے خیال میں اس وقت کے صدر نے ان ہی الفاظ پر عمل کیا، جس میں شک کا فائدہ بہر حال Incumbent کو ملتا ہے –

ہماری سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ بھی قرار دے چکی ہے کہ اختلاف کی صورت میں primacy ( فوقیت ) چیف جسٹس کی رائے کو حاصل ہے اور ہائی کورٹ کا ایک فل بنچ اسی اصول کی بناء پر چار ججوں کی تقرری کو جائز بھی قرار دے چکی ہے – یہ فیصلہ میرے خیال میں اب سپریم کورٹ کے پاس زیر اپیل ہے- یہ رائے سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کی روشنی میں قائم کی گئی ہے جبکہ پاکستان کے آئین کے تحت سپریم کورٹ پاکستان کی حیثیت آزاد کشمیر کے آئین کی روشنی میں کلیتآ مختلف ہے – بہ این ہمہ اگر مان بھی لیا جائے تو اس اصول کا اطلاق بھی جسٹس علوی کی کیس میں ہونا تھا – عدالتیں روایات کی پابند ہوتی ہیں بلکہ مسلمہ قانون بھی یہی ہے- ایک جیسے نوعیت کے مقدمات میں ایک جیسا اصول اپنایا جاتا ہے – یہ اداروں کی حرمت کی بات ہے، کسی شخص کے ہونے یا نہ ہونے کی نہیں –

‎میرے نزدیک ، درج بالا ماضی کی کارروائی کو سامنے رکھتے ہوئے ، بنیادی غلطی حسب سابق کونسل نے کی ، دوسری صدر ریاست نے اس غلطی کی بناء پر ایڈوائس واپس نہ بھیج کے کی، تیسری چیف جسٹس وقت نے ان کو ان ہی وجوہات کی بناء پر حلف لینے سے انکار نہ کر کے کی – چیف جسٹس نے صدر کے مکتوب پر علوی صاحب کی موزو نیت سے اتفاق تو کیا لیکن ان کو غالبآ یہ نہیں بتایا گیا کہ اسی ایڈوائس کی بناء پر تقرری کا حکم دیا جائے گا –

‎ علوی صاحب کی تقرری بطور جج 2011 میں ہوئی اور بطور ‎چیف جسٹس ہائی کورٹ 2017 میں ان کی بطور چیف جسٹس تقرری میں کوئی آئینی سقم نہ تھا ، اگر بطور جج تقرری میں سقم تھا بھی وہ چیف جسٹس کے طور تقرری کے بعد اپنی افادیت کھو گیا تھا- چیف جسٹس بھی بنیادی طور جج ہی ہوتا ہے اور آئین کے تحت ضروری نہیں کہ صرف سینئر جج ہی چیف جسٹس ہو ، گوکہ آئینی روایات یہی ہیں ، اس لئے ان کی بطور چیف جسٹس تقرری ہر لحاظ سے آئینی اور قانونی تھی –

‎ کئی سالوں کے بعد اتنے بڑے منصب کی تقرری کو کالعدم قرار دینے سے نظام کی چولیں ہل جائیں گی ، جس نے سینکڑوں مقدمات کا فیصلہ کیا ، بے شمار انتظامی فیصلے کیے جس میں ماتحت سطح کے ججوں اور عملہ کی تقرری کے علاوہ ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کی سفارش اور ان سے حلف لیا –

‎رٹ کے اختیارات کو اسی وجہ سے صوابدیدی اختیار کے طور رکھا گیا ہے وہ بھی محض کسی ضرر خوردہ شخص کی نالش پر – اس پر کئی مقدمات فیصل شدہ ہیں جن میں طویل ترین عرصہ کے بعد کسی کی تقرری کو چیلینج کرنے کی عدالتیں اجازت نہیں دیتیں – میری علمیت کے مطابق اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ آزاد کشمیر ہی جسٹس علوی کے خلاف اسی اصول پر ایک بار کسی وکیل کا کیس خارج بھی کر چکی ہے –

یہ کوئی ایکیڈمک معاملہ نہیں ہے بلکہ دور رس نتائج مرتب کرنے والا معاملہ ہے ، جس کے اثرات اداروں، اداروں کے احترام اور بھرم ، ریاست کی پوری مشینری کے علاوہ اس شخص پر بھی مرتب ہوتے ہیں جس کی زندکی کی لگ بھگ ایک دھائی سر کاری مشینری کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے ضائع ہوگئی ، جس میں اس کا اپنا کوئی قصور، کوئی عمل دخل نہیں تھا – بے نام و نمود ہوگیا ، پیراں سالی کی عمر پر پہنچ جب کوئی شخص محض دو تین ماہ کے بعد ریٹائر ہورہا ہو کو ٹیکنیکل وجہ کی بناء پر بر طرف کرنا ، اس کی ذاتی کریڈبیلٹی اور ساتھی ججوں کے علاوہ سسٹم کی کریڈبیلٹی پر حرف زنی کرتا ہے –

دس سال کے لگ بھگ بلا تنازع عمدہ شہرت کے ساتھ زندگی گزار کے بغیر کسی جمع پونجی ، نان نفقے کے گھر واپس چلا گیا – اس سارے عرصہ کو تاریخ میں کیا لکھا جائے گا کہ اس عرصہ کے دوران کوئی چیف جسٹس ہی نہیں رہا، کوئی کام ہی نہیں ہوا ؟ حقائق کو جھٹلایا نہیں جاتا، ان کو درست اور منصفانہ سمت دی جاتی ہے – صوابدیدی اختیار قانون کے ساتھ ساتھ Propriety, legitimacy , morality , equity , justice & good conscience کے اصولوں کے تابع ہوتے ہیں – ایسا کیا جانا سسٹم اور آئین کی مسلسل خلاف ورزی کو روکنے لئے ناگزیر ہے ،

جو اتھارٹیز اس غلط کاری میں ملوث ہیں ، ان کے خلاف ملامتی ریمارکس پاس کرکے ، حکومت اور اور کونسل کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ ایسا عمل جعل سازی ہے اور اس کو دہرانے والے واجب التعزیر ہوں گے- چیف جسٹس صاحبان کو بھی ہدایت کی جانی چاہے کہ اس طرح کی تقرری کے حامل شخص کو حلف نہ دیں –

اس کیس کے مخصوص حالات میں Propriety, legitimacy , morality , equity , justice & good conscience کا تقاضا ہے کہ اس عمل کو ادارے ، سسٹم کی ساکھ، اتنے طویل عرصہ کے بعد اس کا نوٹس لیا جانا، اس عرصہ کے دوران کیے گئے سارے عمل کو جوازیت بخشنے ، اور اس عہدہ کے حامل شخص کو اتنی طویل خدمت اور چند ماہ بعد ریٹائر ہونے کی حقیقت کے پیش نظر Fait accompli کے طور پہ قبول کرتے ہوئے رٹ کو خارج کیا جا سکتا ہے- اس کے بعد حامل عہدہ کی عقل تمیزی پر چھوڑا جاسکتا ہے کہ وہ سروس کا بقیہ عرصہ مکمل کریں گے یا ادارے کے دور رس مفاد میں ریٹائر منٹ لے لیں گے –

اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ، ہمارے نظام کاکھوکھلا ہونا واضع ہے، جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے – اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کی ضرورت ہے- یہ معاملہ چیف جسٹسز ، حکومت اور کونسل کے درمیان نہیں رہنا چاہیے، اس کے لیے سلیکشن بورڈ کو وسیع کرنا پڑے گا جس میں وکلاء اور پارلیمان کے دونوں دھڑوں کو بھی شامل کرنا پڑے گا تاکہ کسی کی بالا دستی نہ رہے، کوئی خفیہ ہاتھ کام نہ کریں-

ہائی کورٹ نے اس طرف درست نشاندہی کی ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسی تاریخ نہ دہرائے، اس کیس کے مخصوص حالات کے پیش نظر فیصلہ ٹیکنیکل کے بجائے سبسٹینشل وجوہات کی بناء مختلف ہو سکتا تھا ، جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی – امید ہے اس معاملہ کو اب سپریم کورٹ ملک بھر ، بالخصوص اپنے پہلے فیصلوں کی روشنی میں ٹیکنیکل سے سبسٹینشل صورت دے سکتی ہے –

‎ہمارے سسٹم کے اندر لوگوں کی ہر سطح پر استعداد کار بڑھانے کی بہت ضرورت ہے – اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کے لئے دس سال کی وکالت یا تین سال کا بحیثیت ڈسٹرکٹ جج ہونا کافی نہیں، اس کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی نظام اور حالات کی علمیت ہونا بھی لازمی ہونا چاہیے ،جس طرح یونیورسٹیز میں پروفیسر بننے کے لیے معیاری تھیسز یا آر ٹیکلز کا شائع ہونا لازمی ہو- اعلیٰ عدلیہ کے لیے ریفرشر کورسز ، ملکی اور بین ملکی ٹریننگ کورسز ہونا چاہییں تاکہ استعداد کار بڑھائی جا سکے-

ملکی نظام چلانے اور حکومتی کارندوں کی مشکلات اور کام کاج کا ادراک ہونا چاہیے- لوگوں میں ججوں کا احترام پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، خوف سے نہیں علم و عمل اور کارکردگی سے – آزاد کشمیر چھوٹی سی جگہ ہے جہاں ہر ایک کی دوسرے پر نظر ہوتی ہے ، خامیاں خوبیاں ڈسکس ہوتی ہیں – اچھی لیڈر شپ اور ٹرانسپیرنٹ سسٹم سے اس کو مثالی ریاست بنایا جا سکتا ہے- اس کے لیے سب کو آگے بڑھ کے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے