جو سگّا تھا اس کا درد سیدھا سینے میں محسوس ہوتا تھا، اُس کا بلڈ پریشر بڑھتا تھا تو جذبات بھڑکتے تھے، پلیٹ لیٹس گرتے تھے تو دل کی دھڑکن کمزور پڑ جاتی تھی، اُس کی طبیعت بگڑتی تھی تو شہر کا مزاج بگڑ جاتا تھا، اُنہی جذبات، احساسات، بھائی بندی اور قرابت داری نے کام دکھایا اس کے دکھ درد کم ہوئے، جیل کے قفل ٹوٹ گئے، عدالتیں لگ گئیں، کابینہ کے اجلاس ہوئے، اِدھر اُدھر کی گرد اڑائی گئی بالآخر نتیجہ یہ کہ ہمارا سگّا بالآخر لندن پہنچ گیا اب وہاں اس کا علاج ہو رہا ہے، کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔
جو سوتیلا ہے وہ جیل میں مرتا ہے تو مرے، اُسے بیماریاں ہیں تو بھگتے، بلڈ پریشر بڑھتا ہے تو بڑھے، شوگر لیول کم ہو یا بڑھے، ہمیں کیا؟ وہ کون سا ہمارا سگا، بھائی بند یا قرابت دار ہے۔
نہ وہ میری برادری کا، نہ میرے صوبے کا، نہ میری جیسی پگڑی پہنتا ہے اور نہ ہی وہ میرے جیسے رسم و رواج کا قائل ہے۔ وہ سوتیلا ہے، سوتیلا ہی رہے گا، سگّے کی جگہ تو نہیں لے سکتا۔ سگّا اگر جیل میں مر جاتا تو تحریک انصاف اور طاقتوروں کو کئی سال سیاسی تاوان ادا کرنا پڑتا، سوتیلے کا یہاں کون ہمدرد ہے جو اس کے لئے سوچے یا اس کی مدد کرے، کوئی اس کے لئے آواز بھی کیوں بلند کرے،ہے جو سوتیلا…
سگّے کے عدالتی ٹرائل اس کے صوبے میں ہوئے، اُسے اُس کے آبائی گھر لاہور کی جیل میں رکھا گیا مگر سوتیلے کے ٹرائل راولپنڈی میں ہو رہے ہیں، اُس کی جیل بھی گھر سے سینکڑوں میل دور راولپنڈی میں ہے۔ سوتیلے کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے، سوتیلے کے صوبے والے راولپنڈی کو تین سندھی وزرائے اعظم کی قتل گاہ سمجھتے ہیں، لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کو اسی شہر کے اندر بھرے جلسوں میں قتل کیا گیا.
ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہیں پھانسی پر لٹکایا گیا، اِس صورتحال میں اہلِ سندھ راولپنڈی کو کوفہ نہ کہیں تو کیا لاڑکانہ کہیں؟ چونکہ یہ سوتیلا ہے اس لئے اس کا ٹرائل ہر صورت راولپنڈی میں ہی ہوگا، یہ سگا ہوتا تو دل نرم پڑتا، غیروں کے لئے کون سوچتا ہے، انہیں کون رعایت دیتا ہے جس کے لئے دل نرم کرنا تھا، کر چکے۔ سوتیلے کے لئے دل میں گنجائش نہیں۔
کرپٹ، چور، ڈاکو تو ہمارے قبیلے میں بھی ہیں، مقدمات تو ہمارے کئی جاننے والوں پر بھی ہیں، تاریخیں ہمارے لواحقین بھی بھگتتے رہے ہیں، ہمارے چوروں، ڈاکوئوں کو سزائیں ملتی ہیں مگر بغیر سزا کے انہیں بھی جیل میں نہیں رکھا جا سکتا مگر یہ سوتیلا ڈاکو ایسا ہے کہ بغیر کسی عدالتی سزا کے 11سال پہلے جیل کاٹی اب 150دن سے اوپر ہو گئے نہ کوئی مقدمہ شروع ہوا ہے.
نہ عدالت میں فردِ جرم عائد ہوتی ہے لیکن وہ قیدہے ہم نے اسے یونہی قید رکھنا ہے سوتیلا جو ہوا۔وہ تو کہتے تھے کہ اب ہم نے ایسے ثبوتوں کے ساتھ پکڑا ہے کہ چھوٹنا مشکل ہوگا۔
وہ تو دعویٰ کرتے تھے کہ اس کے سینکڑوں جعلی اکائونٹس ہیں، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے، الزام تو تھا کہ ریڑھی بانوں اور فالودہ فروشوں کے نام پر جعلی اکائونٹ کھلوا کر کروڑوں، اربوں ڈالر کا ہیر پھیر کیا گیا ہے اور تو اور شیخ رشید نے کہا کہ اومنی گروپ والے اعترافِ جرم کرکے جرمانہ ادا کرنے پر تیار ہو چکے ہیں، اب تو سوتیلا گرفتار ہے، نیب آزاد ہے، حکومت خود مختار ہے، طاقتور زور آور ہیں پھر ثبوت کیوں نہیں لائے جاتے؟ وہ فالودہ فروش وعدہ معاف گواہ کیوں نہیں بنتے؟
سیدھا کہیں کہ سوتیلے کے لئے کوئی انصاف نہیں۔ واضح کر ہی دیں کہ لاڈلے اور سوتیلے برابر نہیں ہوتے۔ دل کی بات سامنے لائیں کہ سندھی کے لئے انصاف کے پیمانے اور ہیں پنجابی کے لئے اور بلوچ اور پٹھان بھی وہ درجہ نہیں رکھتے جو ہمارے اپنے سگّے اور لاڈلے رکھتے ہیں۔
ماڈل حسینہ ایان علی اسلام آباد ایئر پورٹ سے گرفتار ہوئی تو تاریں کھڑک گئیں۔ ایک پیادہ خاص طور پر لاہور آیا اور اس نے منصف کو کہا کہ ملک سے لوٹے گئے سارے اثاثے اب ایان علی کے ذریعے باہر نکل آئیں گے، اُس کو نہیں چھوڑنا، اُس کی ضمانت نہیں کرنی، اُس پیادے نے ہر جگہ پیغام دیا کہ سوتیلا پھنس چکا ہے۔
وقت گزرتا رہا پھر ایان نامی پرندہ عدالتی جنگلوں کے قفل کھول دن دہاڑے اڈاری مار گیا۔ کہا گیا کہ ایان اور بلاول کے ٹکٹ ایک اکائونٹ سے بنتے ہیں، کئی سال گزر گئے مگر ابھی تک کوئی دستاویز سامنے نہیں آئی، کوئی مقدمہ نہیں بنا۔ سوتیلے کو البتہ سب و شتم کرنے کے لئے یہ الزامات دہرائے جاتے رہے ہیں اور دہرائے جاتے رہیں گے۔
طالبان کے اقرار، ملزمان کی گرفتاری اور سزائوں کے باوجود اکثر اب بھی اسے ہی بیوی کا قاتل قرار دیتے ہیں، ایسی ایسی توجیہات اور سازشی کہانیاں تراشی جاتی ہیں کہ فوراً سوتیلا ہی’’قاتل‘‘ نظر آتا ہے، مگر یہ قاتل کیسا ہے کہ اس کی پارٹی نے اس کو مانا، 5سال صدر بنائے رکھا، اسٹیبلشمنٹ اختلافات کے باوجود اس کی تعریفیں بھی کرتی رہی، چین کے ساتھ دوستی کے راستے اس نے کھولے، بینظیر کی لاش سندھ گئی تو جگہ جگہ ہنگامے ہو رہے تھے، ایسے میں اسی نے ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگایا۔
خیبر پختونخوا کو اس کا قومی نام اسی نے دیا تھا، اٹھارہویں ترمیم منظور کرکے اسی نے خود اپنے اختیارات پارلیمان کو دیے، یہی سوتیلا تھا جس نے صوبائی خود مختاری کا دیرینہ خواب رضا ربانی کی سربراہی میں منظور کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پورا کیا تھا۔
وہ یہی تھا جس نے سب سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی تھی، یہی تھا کہ جس کے زمانۂ اقتدار میں ملک بھر میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا، یہ وہی تھا جو نواز شریف، افتخار چوہدری اور جنرل کیانی سب کے ناز اٹھاتا تھا، اقتدار کے مشکل کھیل کو سوتیلے نے خوب نبھایا اور پھر سے احتساب کی عدالتوں میں حاضری شروع کر دی۔
سگّے پن اور سوتیلے پن کی بھی حد ہوتی ہے، وہ سوتیلا سہی اس کے جرم لامتناہی سہی مگر جب آپ کو ضرورت ہوتی ہے تو اسے پاک صاف بنا کر صدارت دے دیتے ہو اور جب ضرورت نہیں رہتی تو سارے الزامات اور گناہ اس پر ڈال کر چہرہ مسخ کر دیتے ہو۔
یاد رکھو کہ سوتیلا اگر پنجاب سے مر کر سندھ گیا تو گڑھی خدا بخش میں شہیدوں کے قبرستان میں دفن ہوگا اور وہاں سے اس کی سیاسی روح ان سب کو رلائے گی جو اسے برسوں سوتیلا بناتے رہے ہیں۔