اِن کا جانا تو ٹھہر گیا۔ یہ بات اَب عیاں ہے۔ وہ کیا جملہ ہے جو ہم اِن حالات میں گھسیٹ کے لے آتے ہیں کہ ‘نوشتۂ دیوار ہے‘۔ جو نہ پڑھ سکیں اُن کا معاملہ اور ہے لیکن جن کے تھوڑے بہت کان کھڑے ہیں یا آنکھیں کھلی ہیں اُنہیں احساس ہو گیا ہے کہ بس یہ دور بھی ختم ہونے والا ہے۔
نواز شریف کے حوالے سے پانامہ کیس ایک ذریعہ بنا۔ لاوہ نہ پکا ہوتا تو ذریعے نے کچھ کام نہ آنا تھا۔ یہ جو موجودہ ہیں اِن کے بارے میں ذریعہ کیا بنے گا؟ پانامہ کا قضیہ تو اُلجھنوں سے بھرا ہوا تھا۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس تو نسبتاً سیدھا سادہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے یہ کیس سالوں زیر التوا رہا۔ اَب اچانک اِس میں جان پڑ گئی ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حکم صادر ہوا ہے کہ اِس کی روزانہ کی بنیاد پہ سماعت ہو گی۔ عقل مندوں کو چھوڑئیے، نا سمجھوں کیلئے بھی یہ اشارہ کافی نہیں؟ مولانا فضل الرحمن وغیرہ ایسے ہی نہیں تھے اعتماد سے لبریز۔ کچھ تو تھا اُن کے دعووں کے پیچھے کہ دو ماہ میں سب کچھ مکمل ہو جائے گا۔
صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے اور عمران خان کن بھول بھلیوں میں گم ہیں۔ آئے روز کسی بے تُکے موقع پہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جن کا اصل صورت حال سے دور کا تعلق نہیں۔ اِن ارشادات سے تو سب سے زیادہ بے خبر وہ لگتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بے نظیر بھٹو کا 1990ء میں حال تھا۔ عین اُس دن جب اُن کی حکومت کی صدر غلام اسحاق خان نے چھٹی کرائی‘ اُنہوں نے اپنے معاونِ خصوصی ہیپی مِنوالا کو صدر صاحب کے پاس بھیجا کہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ صدر صاحب نے مِنوالا کو یقین دلایا کہ آئین سے ماورا کچھ نہیں ہو گا۔ اور پھر اُسی شام آئین کے آرٹیکل 58-2-b کے تحت قومی اسمبلی کو برخاست کر دیا گیا اور وزیر اعظم گھر چلی گئیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ جو بھی اَب کہا جائے کہ بہت نالائق نکلے، اتنی نالائقی کی توقع نہ تھی یا کوئی اور عذر پیش کیا جائے اِن موجودہ کو مختلف راستوں سے لانے والے تو وہی تھے جو اَب اُن سے نالاں ہیں۔ عوام کا ایک جتھہ اِن موجودہ کے ساتھ تھا لیکن پیچھے سے حمایت نہ ہوتی تو یہ اقتدار میں نہ آ سکتے تھے۔ تو پھر غلطی کس کی بنی، لانے والوں کی یا بیچارے عوام کی؟ اِس مخمصے کا علاج کیا ہے کہ خود ہی فیصلوں پہ پہنچا جاتا ہے اور جب فیصلے بار آور ثابت نہیں ہوتے تو چارج شیٹ بننا شروع ہو جاتی ہے یعنی خود ہی کرشمہ ساز اور پھر خود ہی گلہ کرنے والے۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟
نواز شریف کو لانے والے کون تھے؟ وہ اور اُن کی جماعت ملک پہ ٹھونسے گئے کیونکہ ناراضگی تب پاکستان پیپلز پارٹی سے تھی۔ نواز شریف کو تیار اس لئے کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کا توڑ مطلوب تھا۔ یہ مشق اتنی کامیاب رہی کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے تقریباً فارغ ہو گئی اور سندھ کی پارٹی ہو کے رہ گئی۔
1988ء میں البتہ مقتدرہ کے ساتھ کچھ الگ معاملہ ہو گیا۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن ناگزیر ہو گئے تھے۔ مارشل لاء لگانے میں کسی کو دلچسپی نہ تھی تو دوسرا راستہ الیکشن کا ہی تھا۔ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکا نہ جا سکا اور بینظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ کچھ وہ نا تجربہ کار تھیں، کچھ خرابیٔ بسیار میں اوروں کا حصہ تھا۔ لیکن ایک باقاعدہ مہم بھی بینظیر بھٹو کے خلاف چلی کہ نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ ملک دشمن بھی ہیں۔ دو سال تک بینظیر بھٹو کو برداشت کیا گیا اور پھر صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے اُن کی حکومت کو چلتا کیا۔
پیپلز پارٹی کو ہرانے کیلئے باقاعدہ ایک اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا۔ الیکشن میں اِس اتحاد کو بھاری کامیابی ملی۔ فیصلہ سازوں کی خواہش تھی کہ غلام مصطفی جتوئی وزیر اعظم بنیں لیکن آئی جے آئی کا زیادہ زور پنجاب میں تھا اور پنجاب میں بطور لیڈر نواز شریف اُبھر چکے تھے۔ اُن کا راستہ روکنا مشکل ہو گیا اور وہی وزیر اعظم بنے۔ بطورِ وزیر اعظم جب وہ پَر نکالنے لگے تو اُن کی یہ ادا پسند نہ کی گئی اور چند ماہ کے اندر ہی نواز شریف اور غلام اسحاق خان کی آپس میں ٹھن گئی۔
اِس تاریخ میں زیادہ کیا جایا جائے۔ فیصلہ کرنے والے کبھی ایک کے ساتھ ہوتے کبھی دوسرے کے۔ استحکام ملک کو نصیب نہ ہو سکا۔ پھر کہانی بنی کہ دونوں بڑی پارٹیاں چوروں اور ڈکیتوں پہ مشتمل ہیں۔ انہوں نے ملک کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ اَب نئی قیادت کی ضرورت ہے جو ماضی کے گند کو صاف کرے اور مملکت کو ایک نیا راستہ دکھائے۔ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے اُن کے معاملات خراب ہوئے اور یہ سوچ پختہ ہوئی کہ نواز شریف کو ہٹائے بغیرکوئی چارہ نہیں۔ یہی سوچ پانامہ کیس کے وقت کارفرما تھی۔ ذریعہ تو وہ کیس بنا لیکن خواہش پکی ہو چکی تھی کہ نواز شریف کا جانا عین قومی مفاد میں ہے۔
پھر جو پاپڑ ہو سکے بیلے گئے۔ تمام تدبیریں اور ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے۔ مشکلات ایک طرف کھڑی کی گئیں اور آسانیاں دوسری طرف۔ نتیجہ یہ نکلا جو ہمارے سامنے ہے۔ بطورِ مسیحائے قوم اِن موجودہ کو ہاتھ سے پکڑ کر اُوپر لایا گیا۔ جتنے کے تھے وہ اَب سب پہ عیاں ہے۔ اتنی صلاحیت ہی نہ تھی تو کرتے کیا۔ نعرہ تبدیلی کا تھا لیکن محض تسبیح ہلانے سے کیا تبدیلی آنا تھی۔ اَب لگتا ہے پھر فیصلہ ہو چکا ہے کہ اِن سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ معجزہ جو رُونما ہونا تھا قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ سزا یافتہ مجرم ضمانت پہ رہا ہوا اور جہاز پہ بیٹھ کے بیرون ملک چلا گیا۔ موجودہ تکتے ہی رہ گئے اور اب طرح طرح کی واویلیاں مار رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو بھی ہو، جو بھی جھٹکا لگے، جو ترکیب استعمال کی جائے مملکت کی صحت پہ کیا اثر پڑ ے گا؟ کیا قومی حالات بہتر ہو جائیں گے؟ کیا قومی معاملات بہتر انداز سے چلائے جائیں گے؟ ہم یہ ناٹک بہت دیکھ چکے۔ جنرل ضیاء تھے تو ہم جیسے بینظیر بھٹو کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ جنابِ زرداری کے کارنامے دیکھے تو اُمیدیں نواز شریف سے لگائیں۔ بیچ میں جنرل مشرف آئے اور اُن کی کیا بڑھکیں تھیں۔ پھر جمہوریت واپس لوٹی اور مملکت کے حالات بہتر کیا ہونے تھے مزید خراب ہوئے۔ اِن موجودہ کو بھی نجات دہندہ کے طور پہ پیش کیا گیا۔ اَب یہ بھی رخصت کے مراحل میں لگتے ہیں۔ ذرا بتایا تو جائے کہ اب کیا ہو گا، کون سامنے آئے گا، کس کو سامنے لایا جائے گا اور مزید کیا بڑھکیں ماری جائیں گی؟
ایک ہی سکرپٹ ہے بس ڈائیلاگ ادا کرنے والے بدل جاتے ہیں۔ کہانی بھی تقریباً وہی ہے۔ دیکھ دیکھ کے تھک چکے ہیں۔ اچھا خاصا ملک ہے۔ ہم کہتے نہیں تھکتے کہ قدرت کی بے پناہ مہربانیاں ہیں، ملک میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ ٹیلنٹ خاک ہے جب حکمرانی کے وصف سے لیس کوئی ملتا نہیں۔ جنرل ضیاء کے وقت ہم بارہ کروڑ تھے۔ اب ماشاء اللہ بائیس کروڑ ہو چلے ہیں۔ ڈھنگ سے ملک کے حالات سنبھالنے والے کوئی مل نہیں رہے۔ ایک جمہوری حکمران نا کام، دوسرا بھی اُسی کیٹیگری میں۔ تیسرے کے بارے میں اب کہا جائے گا کہ نالائقوں کا سردار نکلا۔ جن کا کام ہے حکومت کرنا اُنہیں یہ کام آتا نہیں۔ جن کا کام کچھ اور ہے وہ باگیں اپنے ہاتھ میں رکھنے پہ مُصر رہتے ہیں۔ یہ مخمصہ کب اورکیسے حل ہو گا؟
اسی لیے بارہا کہا کہ ہماری بلا سے کہ اَب یہاں کیا ہوتا ہے۔ ہم بہت دیکھ چکے۔ یہی آرزو رہ گئی کہ شام اچھی گزرے لیکن معاشرہ کم بخت ایسا ہم نے بنا دیا کہ یہ معصوم سی خواہش بھی کسی ڈھنگ سے پوری نہیں ہوتی-