ماحولیاتی صحافت ورکشاپ اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

ماحولیاتی صحافت سے متعلق ورکشاپ سے خطاب میں مشیر اطلاعات گلگت بلتستان شمس میر نے کہا ہے صفائی ماحول کے ساتھ جڑی ہے جس میں ذہنی’روحانی اور اردگردکی صفائی بہت ضروری ہے’اسلام میں صفائی کی بہت تاکید کی گئی ہے’عوام کی زیادہ تعداد کوڑا کچرا دان میں ڈالنے یا ویسٹ مینیجمنٹ کی گاڑیوں میں ڈالنے کی بجائے گھروں کے باہر پھینک دیتی ہے جس سے نہ صرف ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ ماحول کی خوبصورتی میں بھی کمی آجاتی ہے’انہوں نے کہا ماحول کے تحفظ کے لیے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی ‘تقریب میں قدرتی وسائل کو درپیش خطرات پر بھی تفصیلی بات کی گئی۔ماحولیات کا تحفظ و بقا انتہائی ضروری ہے’یہ کائنات بنی نوع انسان کے لیے اللہ کی قدرت کا ایک نایاب تحفہ ہے جسے خود انسانوں ہی کے ذریعے دھیرے دھیرے پراگندہ اور آلودہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب جبکہ اس کے برے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں تو ہم اس کی خوب صورتی،دل کشی اور توازن کو قائم رکھنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ان دنوں ماحولیات کا تحفظ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ کا مرکزبنا ہوا ہے۔ ہم نے اس زمین کو جس پر ہم بستے ہیں غلاظتوں اور گندگی کا انبار بنادیا ہے، اس بات سے بے خبر کہ انسانی زندگی اس کے مہلک اثرات کا شکار ہورہی ہے۔ جنگلوں میں درختوں کو اس بے دردی سے کاٹاجارہا ہے کہ اس کے اثرات موسموں پر صاف جھلکنے لگے ہیں۔ ہوا جو سبھی جانداروں کے لیے ضروری ہے وہ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں، کیمیاوی تجربہ گاہوں سے چھوڑے گئے کچرے اور سڑکوں پر چلتی ہوئی موٹر گاڑیوں کی کثافتوں سے اس قدر آلودہ ہوچکی ہے کہ انسان مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں میں گرفتار ہورہا ہے جو اپنے اثرا ت جلد سے لے کر پھیپھڑے تک پر دکھا رہی ہے ۔

سائنس دانوں نے بہت پہلے اپنی تحقیق سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے کہ اوزون نامی گیس کی پرت جو سورج کی شعاعوں میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعوں کے مضر اثرات سے بچاتی ہے اس میں سوراخ ہوگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسم نے اپنا نظام بدل دیا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہے۔ پانی جو کسی بھی جاندار کے لیے دوسری بنیادی چیز ہے اور جس کے بغیر جانداروں کی زندگی کا تصور ناممکن ہے اسے بھی ترقیاتی دور نے زہریلا بنانے سے گریز نہیں کیا۔ ملک کی سبھی ندیاں، جھیل و تالاب آلودہ ہوچکے ہیں۔ ان کے توسط سے کیمیاوی مادے اور ان کے زہریلے اثرات انسانی جسم میں منتقل ہوکر نئی نئی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ پچھلی دہائی میں کئی قومی جنگیں ہوئیں جن میں آتشیں اور جوہری ہتھیاروں کا کھل کر استعمال ہوا۔ حد یہ ہے کہ لیزر شعاعوں کا بھی استعمال ہونے لگا۔ ایسے ہتھیار نہ صرف انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ماحولیات پر بھی مضر اثرات ڈالتے ہیں، ان کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں ماحولیات کا توازن ہچکولے کھانے لگتا ہے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی چیز کی حفاظت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس کے وجود پر خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ اسی لیے ماحولیات کی اصلاح اور پاکیزگی کو قائم رکھنے کی کوشش اس وقت ہورہی ہے جب کہ ماحول پوری طرح کثیف ہوچکا ہے۔آج ماحولیات میں کثافت پھیل چکی ہے اور دنیا کے ہر گوشے میں اسے پاکیزہ بنانے کی مہم شروع ہوچکی ہے۔1400 سال پہلے قرآن حکیم نے آخری رسولۖ کے ذریعے ماحول کو کثافت سے پاک رکھنے اور فضا کو آلودگی سے بچانے کی تعلیم دی تھی۔ اصولی ہدایات، موثر تعلیمات اور عملی اقدامات تینوں طرح سے ماحولیات کو پاکیزہ رکھنے کی تلقین کی۔ پیغمبر آخر الزماںۖ نے بتایا کہ آسمان و زمین، پہاڑ و جنگل، پرندے اور باغات،وادیاں اور آبادیاں یہ سب کچھ اللہ رب العزت کے متوازن نظام کا شاہکار ہیں۔ آپ نے اللہ کے اس پیغام کو انسانوں تک پہنچایا۔ ترجمہ : بے شک آسمان اور زمین کو پیدا کرنے میں، رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو لے کر چلتی ہیں دریا میں لوگوں کے کام کی چیزیں اور پانی میں جس کو اتارا اللہ نے آسمان سے،پھر جلایا اس سے زمین کو اور پھیلائے اس میں سب قسم کے جانور اور ہوائوں کے بدلنے میں اور بادل میں جو کے تابعدار ہے اس کے حکم کا درمیان آسمان و زمین کے۔ بیشک ان سب چیزوں میں نشانیاں ہے عقل مندوں کے لیے۔ قرآن مجید کی اس آیت پر غور کریں تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس کا تعلق براہ راست ماحولیات سے ہے۔

آسمان، زمین، سمندر، کشتی، دن و رات، بارش، باغات، ہوائوں کی گردش، حیوانات و پرندوں کی زندگی، بادلوں کا فضا میں تیرنا سب کچھ انسانوں کے سامنے پیش کردیا گیاہے۔ رسول مقبول ۖ نے اللہ تعالی کا یہ سبق بھی انسانوں کو یاد کرایا کہ کائنات میں ان ساری چیزوں کو ایک خاص توازن اور اعتدال سے بنایا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ انسان اس توازن کی حکمت کو علمی اور عملی سرگرمیوں کاموضوع بنائے۔ اس سے فائدہ حاصل کرے۔ اس کا توازن برقرار رکھے اور اس میں خلل نہ ڈالے۔اب ذرا غور کریں چاند اور سورج کی گردش، پیڑ پودوں کی شادابی آسمان کی بلندی، زمین کی تخلیق، اناج، پھل و خوشبودار پھول کی پیدائش ان نعمتوں کو انسان کے سپرد کرنے کے بعد یہ بھی تعلیم دی گئی کہ یہ سب اللہ کے قائم کیے ہوئے خاص نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ ان میں خلل نہ ڈالو بلکہ فائدہ حاصل کرو۔

قدرت کی دی ہوئی نعمت کا استعمال صرف خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق کرنے سے توازن کا فائدہ خود انسانوں کو ہی پہنچے گا۔ اگر وہ اس نظام و توازن میں مداخلت کرے گا تو اس کا نقصان بھی انسانوں کو ہی ہوگا اور اس کے برے اثرات بھی وہی بھگتے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی انسانی آبادی مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے۔ماحول کے تحفظ کے متعلق پیارے نبیۖ نے یہ خاص ہدایت دی ہے کہ سایہ دار درخت کے نیچے اور راستہ میں گندگی نہ پھیلائی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں ذبح ہونے والے جانوروں کے فضلات سڑکوں اور نالیوں میں بکھرے ہوتے ہیں جس سے گندگی پھیلتی ہے۔ اس کے تعفن سے مہلک بیماریاں پھیلتی ہیں۔ حکم یہ ہے کہ قربانی کے فضلات کو دفن کردیاجائے مگر افسوس کہ ہم رسولۖ کی پیروی کرنے والے تو خود کوکہتے ہیں لیکن اپنے نبی کی اسی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔ آج کادور اپنی سائنسی ایجادات و تحقیقات کی بنا پر ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔دنیا کا ہر انسان اس سے استفادہ کرنے میں جٹا ہے۔

وقت کی ضرورت بھی یہی ہے، مگر جہاں ترقی عالم انسان کو سہولتیں فراہم کررہی ہے وہیں دنیا میں بسنے والے ہر ایک جاندارانسان، چرند پرند اور پیڑ پودوں کے لیے مسائل بھی پیدا کررہی ہے۔ وہ مسائل ہیں فضا کی آلودگی، جانوروں کی نسلوں کا روپوش ہونا، جس سے ماحولیات کا توازن بگڑ رہا ہے اور ہم اس کے برے نتائج سے دوچار ہیں۔ آخر یہ عدم توازن کیوں ؟کہاں پر ہم سے غلطی ہوئی کہ عالمی سطح پر ہر ایک جاندار اس سے متاثر ہوا؟ہم اپنے گردو وپیش پر نظر ڈالیں توہمیں بہت سی ایسی باتیں ملیں گی جس کے باعث محسوس ہوگا کہ ہم نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا استعمال کم اور اسراف زیادہ کیا ہے۔ جب کہ اللہ کے رسول نے ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں انسانوں کے لیے پیدا کی ہیں۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ رب کائنات نے جو نعمتیں عطا کی ہیں اس کا استعمال ایک سلیقے کے ساتھ ہو، ضرورت کے تحت کسی چیز کا استعمال توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ کھائو پیو اور فضو ل خرچی نہ کرو، کیوں کہ فضول خرچ انسان اللہ کو ناپسندہے۔ لہذا پانی، جنگل، معدنیات، پرندے، توانائی، قدرتی وسائل۔ ان تمام چیزوں کا صحیح استعمال کیا جائے اور اسراف سے اجتناب کیا جائے تو ماحولیات کے بگڑے توازن کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ قرآن نے بتا دیا ہے کہ ماحولیات کے توازن کے لیے انسان کو کیا کرنا ہے، پھر بھی ہم قدرتی وسائل کے بے جا استعمال سے باز نہیں آرہے ہیں۔ماحولیات کے عدم توازن کی بات چل رہی ہے تو اس ضمن میں بھی غور کرتے چلیں کہ ایسا ہونے کا سبب کوئی ایک نہیں ہے بلکہ مختلف اسباب ہیں۔

جن میں بڑھتی ہوئی آبادی بھی اہم ہے، اس نے رہائش کا مسئلہ پیدا کردیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے انسان نے بے دردی سے جنگلوں کا صفایا کردیا۔ حالانکہ سائنسی تحقیق یہ اشارہ کر چکی ہے کہ درختوں کی اندھا دھند کٹائی سے ماحولیات کا توازن بگڑ رہا ہے۔ درخت و پودے ماحولیات کو سازگار اور موسم کو اعتدال پر رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ لیکن سائنس کے اس علم سے پہلے قرآن حکیم میں اللہ پاک نے ہدایت فرمادی ہے کہ زمین پر ہریالی انسانوں کے لیے کتنی مفید ہے، اسی لیے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے کہا: بے ضرورت درختوں کو نہ کاٹیں، کیوں کہ ہرے بھرے درخت انسانوں اور جانورں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ سائنس کا تجربہ بتاتا ہے کہ درخت فضا سے زہریلی گیسوں کو جذب کرکے صاف ہوا خارج کرتے ہیں جو انسان و جانوروں دونوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جو لوگوں میں شعور کی بیداے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے اگر ماحولیاتی صحافت پرتوج مرکوز کی جائے تو صورتحال میں نمایاںبہتری آ سکتی ہے اس ضمن میں صحافت اور صحافیکو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو حقہ انجام دینے پر توجہ دینا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے