عرش صدیقی کو ملال تھا کہ دسمبر آ گیا ہے۔ دسمبر کے تو اکتیس دن ہوتے ہیں اور یہ سرد دن بہرحال گزر جاتے ہیں۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ریاست کی سرد مہری پر بہتر دسمبر گزر چکے ہیں۔ اس زمستانی موسم کی ہڈیوں تک اتر جانے والی بے بسی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ آمریت موت جیسی بے مہر ہے۔ موت مکالمہ نہیں کرتی، قطعیت کا فرمان جاری کرتی ہے۔ جمہوریت کی رگوں میں زندگی کا گرم لہو دوڑتا ہے۔ جمہوری مکالمے میں دکھ بیان کیا جاتا ہے، درد کی شنوائی ہوتی ہے اس لئے کہ جمہوریت قوت، رسوخ اور وسائل سے محروم بے نواؤں کو فیصلہ سازوں کے انتخاب کی طاقت عطا کرتی ہے۔ ہمارا المیہ مگر ایسا پیوستہ خنجر ہے جس کی کاٹ بیان کرنا سفوکلیز کی تمثیل اور میر انیس کے مرثیے سے بھی ممکن نہ ہوتا۔ ہمارے جمہوری پرچم پر زور آوروں کا تھوک جم گیا ہے۔ ہماری جمہوریت کے دودھ میں جہالت کی آلودگی شامل ہو گئی ہے۔ ہمارے شہیدوں کا لہو سمجھوتوں کے قصاص و دیت میں بیچ دیا گیا ہے۔ ہمارے درد اقتدار کی دہلیز پر رہن رکھ دیے گئے ہیں۔ ہمارے بچپن کی معصومیت پر اہل ہوس کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ ہماری جوانی کے خواب روایت کی دیوار میں چن دیے گئے ہیں۔ ہمارے بڑھاپے کی سفید چادر پر بے کسی کے بدنما نشان ثبت ہو گئے ہیں۔ ہم نے بار بار آمریتوں سے یدھ کر کے جمہوریت کا سوئمبر جیتا ہے لیکن ہماری امنگوں کی بارات جنازوں کے جلوس میں بدل جاتی ہے۔ سننے والے کانوں میں جاننے کی سکت ہے تو ہماری حکایت سنیں۔
اپریل 2017 میں بدقوارہ اوباشوں کے ایک ہجوم نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے باشعور طالب علم مشال خان کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ حملہ آور ملزموں کو عدالت سے رہائی ملی تو تقدیس کے برخود غلط پتلوں نے انہیں غازی کا اعزاز بخش کر پھولوں کے ہار پہنائے۔ اگر بری ہونے والے جرم میں شریک نہیں تھے تو ان کی توقیر کی دلیل کیا تھی؟ اس کا جواب پنجاب کی انتظامیہ نے دیا ہے۔ 29 نومبر کو لاہور میں طالب علموں کے یک جہتی مارچ میں ہزاروں دمکتے نوجوان چہروں کے درمیان خاموشی سے اپنے آنسو پونچھتے اقبال لالہ کو اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے جو پاکستان کے مستقبل کے خلاف درج کی گئی ہے۔ ساہیوال میں چار بے گناہ دن کی روشنی میں قتل ہوئے۔ عدالت نے ملزم سرکاری اہل کاروں کو بری کر دیا لیکن ساہیوال اسپتال کی بنچ پر بیٹھے ان تین کم سن بچوں کی اداس تصویر ہماری مثل مقدمہ سے خارج نہیں ہو سکتی جو گم سم بیٹھے اپنے بے گناہ ماں باپ کی لاشیں تک رہے تھے۔ کراچی کی سڑک سے کیمروں کی موجودگی میں نوجوان لڑکے کو گولی مار کر اس کی ساتھی لڑکی اغوا کر لی گئی ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور بلاول بھٹو کراچی ہی میں رہتے ہیں۔ لاہور میں دارالامان کی یتیم بچیوں کے خلاف ایک بھیانک جرم کی خبریں آئی ہیں، دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ قوم کی عصمت کے استغاثے میں صوبائی وزیر کا نام آ رہا ہے۔ وزیر اعظم لاہور آئے اور وزیر اعلیٰ کا کندھا تھپتھپا کر واپس چلے گئے۔ یہ وہی لاہور ہے جہاں سمن آباد کی دو بچیوں کے اغوا پر جاوید ہاشمی نے گورنر ہاؤس کا دروازہ روند ڈالا تھا۔ جاوید ہاشمی اب ایک بوڑھا سیاستدان ہے جس کی آواز گم ہو چکی ہے۔ اس کی سابق جماعت کا قائد تو اپنی ہی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی خاتون استاد کو دھکے مارے جانے پر خاموش رہا تھا۔
دادو کے نواح میں پہاڑی پتھروں پر نو سالہ گل سما کے لہو کے نشان ابھی موجود ہیں جسے جرگے کے حکم پر سنگسار کیا گیا۔ گل سما کی قبر کی مٹی ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی اور صوبائی وزیر سعید غنی کہتے ہیں کہ قتل کے شواہد نہیں ملے۔ شواہد تو جون 2014 کے ماڈل ٹاؤن قتل عام میں بھی نہیں مل سکے اور نہیں مل سکیں گے کیونکہ فواد چوہدری پرویز مشرف کو قوم کا محسن قرار دیتے ہیں۔ سوال کیا جائے گا کہ بارہ مئی 2007 کو پرویز مشرف نے کراچی کے قتل عام کو اپنی قوت کا مظاہرہ قرار دیا تو فواد چوہدری کس جماعت کا حصہ تھے؟ فردوس عاشق اعوان مولانا فضل الرحمٰن کو پارلیمنٹ کے تحفظ کی وکالت کا طعنہ دیتی ہیں، یہ نہیں بتاتیں کہ مئی 2017 تک وہ خود کس جماعت کی صوبائی نائب صدر تھیں۔ کیا تعجب کہ اس ملک کے ایوان بالا میں پانچ بلوچ عورتوں کو زندہ درگور کرنے کا سوال اٹھایا جائے تو مقامی روایت کی دلیل دی جاتی ہے۔ روایت کا کیا مذکور ہے، میری تاریخ ندامت کی ہے۔ 40 برس قبل بننے والی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھنے والی 70000 شہادتوں کی دہائی دے کر دہشت گردی ختم کرنے کا کریڈٹ مانگا جاتا ہے، ملالہ یوسف زئی کا جرم بے گناہی معاف نہیں ہوتا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے شواہد دھو دیے جاتے ہیں اور اقبالی ملز م بری کر دیے جاتے ہیں اس لئے کہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو میاں مٹھو کی دراز دستیوں پر گرفت کا یارا نہیں۔
سراج درانی سے ووٹ کی توہین پر سوال نہیں کیا جاتا۔ ریاستی فرمان سے احتساب کا سربراہ مقرر ہونے والا اہل کار منتخب نمائندوں کی دستار سے کھلواڑ کرتا ہے اور ریاست آرٹیکل چھ کے ملزم کو بچانے کی فکر میں ہے۔ یہ تو معلوم ہے پارلیمنٹ کو قانون سازی کی جو تجویز دی گئی ہے وہ بطریق احسن انجام پائے گی، جمہوریت لیکن دستور کی 280 شقوں کا بے روح مجموعہ نہیں، یہ دستور 22 کروڑ نفوس کے مستقبل کا منشور ہے۔ جمہوریت ایوان بالا میں جھرلو پھیرنے والے 14 نامعلوم افراد کا نام نہیں، دادو کی نو سالہ بیٹی کے لہو کا حساب ہے۔ دارالامان لاہور کی بے کس بچیوں کے بہتے نمکین آنسوؤں کی چبھن ہے۔ ووٹ کی عزت ان اڑھائی کروڑ بچوں کا مقدمہ ہے جو اسکول سے محروم ہیں۔ میلوں دور سے پینے کا پانی ڈھونے والی ماؤں کی مشقت ہے، گوادر کے ان باسیوں کا محضر نامہ ہے جو اپنے ہی شہر میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ ملکی معیشت کو زندہ کرنے کے لئے دو درجن ساہوکاروں سے ملاقات کافی نہیں، ان 22 کروڑ تہی دست شہریوں کو ریاست کی قسمت میں شریک کرنا جمہوریت ہے، جن پر لاچارگی، محرومی، غربت اور جہالت کا دسمبر گزرتا ہی نہیں۔