Rise of Ethno-Nationalism

لیجیے… نئے سال کا وکالت نامہ حاضر ہے۔ سن 1441 سال ہجرت نبویﷺ کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ۔
یکم محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو خلیفۂ دوم، اسلام کی شمشیرِ بے نیام، سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ رتبۂ شہادت پر فائز ہوئے تھے۔ اسی ماہ کے دسویں دن شہیدِ اعظم، نواسۂ رسول حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اور اصحاب سمیت تاریخِ انسانیت کی عظیم تر قربانی اپنے مقدس لہو سے رقم کر چھوڑی۔

آج ایشیا میں چودہ سو سال بعد بھی مسلمانوں کے لیے کربلا جیسے مظالم برپا ہیں۔ کشمیر، ایودھیا اور گجرات کے بعد آسام بھی‘ جہاں اُنیس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو Indian Citizenship سے محروم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اب ان کا ٹھکانہ ہٹلر کے زمانے جیسے Concentration camps ہوں گے۔ ان کی تیسری نسل بھی بے گھر، بے وطن، بے شناخت اور بے خانماں ہو گی۔ ان میں بنگلہ دیش سے آنے والے وہ مہاجر بھی شامل ہیں جن کو1970ء کے عشرے میں مکتی باہنی (لشکرِ نجات) اور شکتی باہنی (طاقتور لشکر) کے نام سے بھارت نے تشکیل دیا تھا۔ ستر کی دہائی میں مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنانے کے لیے مکتی باہنی اور شکتی باہنی جیسے لشکر بھارت کے کام آئے۔ کل اسلامی کیلنڈر کے سالِ گزشتہ کا آخری دن تھا۔ اس دن آسام کے ستر لاکھ سے زائد مسلمانوں کو کوفہ ضرور یاد آیا ہو گا۔

دوسری جانب، آج انٹرنیشنل پریس میں چھپنے والی تصویروں اور ویڈیوز کے مطابق بنگلہ دیشی مسلمانوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مظلوموںکے حق میں بڑے احتجاجی مظاہرے برپا کیے۔ اسے حسنِ اتفاق کہہ لیں یا کشمیری مسلمانوں کے بے گناہ لہو کا معجزاتی کرشمہ کہ بنگلہ دیش میں یہ مظاہرے اسی دن ہوئے جس دن پاکستان میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ”کشمیر آور‘‘ منایا گیا‘ جس کی اپیل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کی تھی۔
کشمیر کے تنازع نے70 سال کے عرصے میں بہت سے تاریخی ابہام دور کر دیے ہیں۔ ایسے ابہام جن کے بطن سے اُٹھنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے تاریخ کے طالب علم سات عشروں تک خاک چھانتے رہے۔ جن کی تفصیل ان نکات سے واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔

پہلا نکتہ! اسے سمجھنے کے لیے ہمیں سال 1937ء تا 1947ء میں واپس جانا ہو گا جب کانگریس کے ہم نوا سیاسی مولوی قیامِ پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان سیاسی مولوی حضرات کی اپنی آوازوں میں آڈیو موجود ہے اور پرنٹ میڈیا میں ان کی تحریریں اور رپورٹ شُدہ تقریریں بھی‘ جن کا مرکزی خیال ہندوستان میں مسلم وحدت کا شوشہ تھا۔ ان کے ایجنڈے کے مطابق آزاد اور خود مختار پاکستان کی بجائے اکھنڈ اور متحدہ ہندوستان میں مسلمان زیادہ محفوظ ہوں گے بلکہ آزاد بھی۔ لمبی تفصیل میں جانے کی بجائے آج اُسی ہندوستان کے طول و عرض میں انڈین مسلمانوں کی آزادیاں ہم سب کے سامنے ہیں۔ وہ نہ کھلے عام نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نہ گائے کی قربانی دے سکتے ہیں۔ اور نہ ہی کسی طرح کا بیف یا مٹن پکا کر کھا سکتے ہیں۔ ہندوتوا کا بھارت گئو رکھشا کے نام پر برسرِ عام مسلمانوں کو قتل کر رہا ہے‘ جبکہ اس کا لیڈر انڈین ہٹلر المعروف مودی، گائے ذبح کر کے اس کے تکے اور کباب کھانے والے عرب حکمرانوں سے جپھیاں مار رہا ہے۔ بقولِ اقبالؒ
مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی میٔ ناب
بیدار ہوں دل، جس کی فغانِ سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب

اس حقیقت میں اب نہ کوئی ابہام باقی نہ کوئی سوال کہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے لیے بھارت میں کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہی استھان ہے۔

دوسرا نکتہ! بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم کی جانب سے ”تھیوری آف ٹُو نیشنز‘‘ بر صغیر کے جغرافیہ کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اگلے روز کیرالہ کے ایک کالج میں چار فُٹ کا بھارتی پرچم اور گزوں کے حساب سے لمبا پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا۔ پرچم لہرانے والے کالج کے بچے تھے جن میں سے 30 گرفتار ہو گئے۔ لیکن ہندوستان کی نئی نسل نے اس حقیقت پر مہر لگا دی کہ ہندوئوں کے اس استھان پر دوسری حقیقت پاکستان ہے‘ جہاں اقلیتوں کو بھی امان سے زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے۔

تیسرا نکتہ! ہندوستان میں جس نسل نے سیکولر آئین بنایا تھا اس کی ارتھیاں جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔ اب جو نسل آر ایس ایس اور مودی نے تیار کی ہے‘ وہ نچلی ذات کے ہندوئوں تک کو untouchables سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہندو کے علاوہ دوسرا کوئی بھی انسان جینے کے قابل نہیں ہے۔ یہ Ethno-Nationalism کا ایسا موذی مرض ہے جس پر دنیا میں بڑے سوچنے والوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین تحریر Andy Levin کی ہے جو امریکہ کے معروف سینیٹر ہیں۔ تحریر کا عنوان ہے Kashmir and the Rise of Ethno-Nationalism۔ اینڈی نے دنیا کی توجہ اس نئے خوف ناک رجحان کی جانب مبذول کروائی ہے جس کی بنیاد پر نسلی امتیاز پر مبنی قتلِ عام بڑھتا جا رہا ہے۔

چوتھا نکتہ! پاکستانی وزیرِ اعظم کی جانب سے بھارتی مسلمانوں کی نسل کُشی پر دنیا میں بجائی جانے والی خطرے کی گھنٹیاں ہیں‘ جس کے نتیجے میں آج امریکہ کے پارلیمانی ایوان سے لے کر یورپی یونین کی پارلیمنٹ تک بھارت کے مسلمانوں کے مستقبل اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں شنوائی کے دروازے کھل گئے ہیں۔ پاکستان کی مین لینڈ پر مگر کچھ سورما ایسے ہیں‘ جو صرف شکم کے ارد گرد دوڑتے رہتے ہیں۔ جب سے کشمیر کے لوگوں کو بڑی جیل میں قید کیا گیا‘ ان کا بیانیہ چار نکتوں کے گرد گھومتا ہے۔ پہلا، پاکستان کی حکومت سے ڈو مور کا مطالبہ مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ اقوام عالم میں وہ کون سے پہلو یا ادارہ ہے جس پر ریاست کے منیجرز اور عمران خان کی حکومت اپنا کردار ادا کرنے میں غافل رہے۔ دوسرا، عمران خان کی کوششوں اور گزشتہ حکمرانوں کا تقابل ہے۔ ایسے لوگ خود تو کچھ نہیں کرتے؛ البتہ ایٹم بم کے فوری استعمال کا مشورہ دے کر چھپ جاتے ہیں۔ تیسرے وہ جن کے پاس paid content کا ٹھیکہ ہے‘ امن کی آشا اور مایا دیوی کی بھاشا والا۔ آخری وہ جن کے نزدیک کشمیر میں بھارتی فوج کی چیرہ دستیاں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اصل بات بنیے سے تجارت ہے۔

نسلی امتیاز پر مبنی قتلِ عام اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ اکثر مسلمان ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے آج ساری دنیا ہندو وحشت گری کو تعجب کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی معلوم آبادی 1.8 ارب سے بھی زیادہ ہے۔ فرض کریں، عالمی اداروں کا تساہل مسلمانوں کو یہ یقین دلا دے کہ مہذب راستوں سے نہ ان کی آواز سنی جاتی ہے‘ نہ ان کی رائے کا احترام ہو رہا ہے۔ رائے چھوڑئیے، مسلم تہذیب کے مظاہر تشدد کے علامتی استعارے بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک انڈین شاعر نے اس پر بہت فکر انگیز رباعی کہی۔ خدا نہ کرے کہ یہ مستقبل میں انسانیت کا مقدر ہو جائے۔
مسیحا درد کے ہم درد ہو جائیں تو کیا ہو گا؟
رواداری کے جذبے سرد ہو جائیں تو کیا ہو گا؟
جو یہ لاکھوں کروڑوں پانچ وقتوں کے نمازی ہیں
اگر سچ مچ میں دہشتگرد ہو جائیں تو کیا ہو گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے