سر عام پھانسی کی قرارداد: چند اہم سوالات

قومی اسمبلی میں سر عام پھانسی کی قرارداد منظور ہوئی تو منیر نیازی یاد آ گئے :

ہے منیر، حیرتِ مستقل
میں کھڑا ہوں ایسے مقام پر

برادر مکرم علی محمد خان تو ساون کا بادل ہیں، کب کہاں کتنا برس پڑیں کچھ خبر نہیں لیکن یہ قومی اسمبلی کو کیا ہوا؟ قرارداد کے متن سے اتفاق یا اختلاف ثانوی چیز ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ یہ قرارداد بذات خود ایک حیرت کدہ ہے جو بتا رہا ہے امور ریاست میں سنجیدگی کا ہاتھ کتنا تنگ ہے۔ اس مشق نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہم ان پر غور کر سکیں تو معلوم ہو انتشارِ فکر میں لپٹا یہ بحران کتنا سنگین ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ایک ایسے معاملے میں، جس کا تعلق نظام تعزیر سے ہو، پارلیمان کا بنیادی کام کیا ہے؟ قانون سازی کرنا یا قراردادیں پاس کرنا؟ پارلیمانی روایات میں بلاشبہ قرارداد کی ایک رسمی سی اہمیت ہے جس کے ذریعے پارلیمان اپنی اجتماعی سوچ کا اظہار کرتی ہے۔ جیسے فلسطین یا کشمیر کا مسئلہ ہے یا دنیا میں کوئی اور معاملہ درپیش ہوتا ہے تو پارلیمان قرارداد کے ذریعے اپنی فکر کا ابلاغ کرتی ہے۔ لیکن جس معاملے کا تعلق قانون سازی سے ہو، جو فوج داری قانونی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کا معاملہ ہو وہاں پارلیمان قانون سازی کرے گی یا قراردادوں کے دفتر لکھنے بیٹھ جائے گی۔ آپ خود فیصلہ ساز ہیں، آپ ہی نے قانون بنانا ہے، آپ ہی اس میں ترمیم کے مجاز ہیں۔ سوال یہ ہے پھر یہ قرارداد کس لیے لائی گئی ہے اور اس کی افادیت کیا ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس قرارداد کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ فاضل اراکین پارلیمان چاہتے کیا تھے؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل کی قانون میں اجازت نہیں ہے یا پھر ممانعت کی گئی ہے اور اب وہ اجتماعی رائے کا اظہار کر کے قانون سازی کے بارے میں اپنی حساسیت سامنے لا رہے ہیں؟ ’

کیا یہ قرارداد لاتے وقت انہیں کچھ خبر تھی کہ اس معاملے میں موجودہ قانونی پوزیشن کیا ہے؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ جیل مینوئل میں بھلے سر عام پھانسی کی گنجائش موجود نہیں لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت سزائے موت کے اطلاق میں طریقۂ کار کا تعین کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ اور حکومت کا مطلب سپریم کورٹ بتا چکی کہ کابینہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب زینب قتل کیس میں لاہور ہائی کورٹ میں سر عام پھانسی کے لیے درخواست دائر کی گئی تو عدالت نے اس درخواست کو رد کرتے ہوئے کہا دفعہ 22 کے تحت یہ کام حکومت کر سکتی ہے، عدالت نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ دفعہ 22 کے ہوتے ہوئے قرارداد لانے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟

ہو سکتا ہے حکومت یہ سمجھتی ہو کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے ہر معاملے پر انسداد دہشت گردی کے قانون کا اطلاق ممکن نہیں ہو گا اور الگ سے قانون سازی کی ضرورت ہے اس لیے یہ قرارداد لائی گئی ہو۔ اس صورت میں تیسرا سوال جنم لیتا ہے۔ سوال یہ ہے ابھی چند روز پہلے پارلیمان میں زینب الرٹ بل پیش کیا گیا۔ قومی اسمبلی اگر ایسے مجرمان کو سر عام پھانسی کی سزا دینا چاہتی تھی تو یہی بات اس قانون کے مجوزہ مسودے میں کیوں شامل نہیں کی گئی؟ محض ایک قرارداد پر اکتفا کیوں کیا گیا؟

چوتھے سوال کا تعلق پارلیمان کی معاملہ فہمی سے ہے۔ سوال یہ ہے کیا قرارداد لانے والوں کو کچھ خبر ہے پھانسی یا سر عام پھانسی کی راہ میں اصل رکاوٹ کیا ہے؟ مقامی قانون اس کی راہ میں رکاوٹ ہے یا عالمی برادری کا دباؤ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر کیا جائے اور دنیا کے ساتھ چلا جائے، ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹکی ہے اور معاشی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، کیا ہم بین الاقوامی برادری کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟

پھانسی اور سر عام پھانسی دونوں کی گنجائش ہوتے ہوئے بھی امر واقع ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا جا رہا، سر عام تو دور کی بات ہے، پھانسی کی سزا بھی سانحہ اے پی ایس سے پہلے معطل تھی۔ جب عالمی برادری کی حساسیت کے پیش نظر ایک چیز پر قانونی گنجائش ہونے کے باوجود عمل نہیں ہو پا رہا تھا تو بلاوجہ ایک محاذ کھول لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟

ایک کام آپ نے کرنا ہی نہیں ہے، آپ نے تازہ ترین قانون سازی میں اسے شامل ہی نہیں کیا پھر یہ کیسی دانش مندی ہے کہ آپ نے بلاوجہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو انگلی اٹھانے کا موقع دے دیا۔

پانچویں سوال کا تعلق حکومت کے انتشار فکر سے ہے۔ ابھی پرویز مشرف کیس میں عدالت نے ایک فیصلہ دیا تو حکومت نے ڈی چوک پر لٹکانے والی اقلیتی رائے پر شدید نقد کیا۔ اور اب اسی حکومت کا وزیر سر عام پھانسی کے حق میں قرارداد لا رہا ہے اور وہ قرارداد پاس بھی ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمان سے قوم کو وحدت فکر ملنی چاہیے یا منتشر الخیالی؟

چھٹا سوال یہ ہے کہ حکومت سادہ بہت ہے یا ہشیار بہت؟ وزیر ہی قرارداد لا رہے ہیں اور وزیر ہی اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ کوئی عام رکن اسمبلی ایک قرارداد لے آئے تو اسے اس کی ذاتی رائے قرار دے کر صرف نظر کیا جا سکتا ہے لیکن وزرائے کرام میں تو کوئی فکری یکسوئی یا مشاورت ہونی چاہیے۔ کیا یہ سادگی ہے جس جمالِ خوش ادا کے جی میں جو آئے کہہ ڈالتا ہے، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں؟ یاا س کا تعلق حکمت عملی سے ہے کہ کچھ لوگ ایک طبقہ فکر کو آسودہ رکھیں اور کچھ وزرا دوسرے مکتب فکر سے داد شجاعت وصول فرماتے رہیں؟ باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے