سعودی عرب ،”جنگی شہزادہ” اور اسرائیل سے تعلقات

سعودی عرب کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل قریب میں سعودی عرب کے علیل اور مخلتف بیماریوں میں مبتلا شاہ سلمان اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے اور اگست میں اپنی 32 ویں سالگرہ منانے والے نئے کراون پرنس محمد بن سلمان سعودی عرب کے نئے حکمران بن جائیں گی۔

سن دو ہزار پندرہ میں ہی جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی این ڈی نے یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ محمد بن سلمان اپنے والد کی زندگی میں ہی تخت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی "سعودی شاہی خاندان” کے ساتھ ساتھ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے۔

یہ خفیہ رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد جرمن حکومت نے فوری طور عوامی سطح پر اس کی تردید کر دی تھی لیکن بند دروازوں کے پیچھے اعلی جرمن حکام ان خدشات کا تذکرہ بھی کرتے رہے اور ان سے بخوبی آگاہ بھی تھے۔
اس خفیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سعودی عرب خطے کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہے اور اپنی طاقت کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے سعودی عرب "سرحدوں کے پار فوجی مداخلت” بھی کر سکتا ہے۔

اب سعودی شاہی خاندان کے طے شدہ ضابطوں سے ہٹ کر اور موجودہ کراون پرنس محمد بن نائف کو ہٹا کر محمد بن سلمان کو کراون پرنس بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی شاہی خاندان میں مزید دراڑیں اور اختلافات پیدا ہونا یقینی ہیں۔

سعودی عرب میں وژن 2030 شروع کرنے والے محمد بن سلمان ابھی تک سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں۔ اس دوران وہ نیا فوجی اتحاد قائم کر چکے، یمن میں بمباری جاری ہے اور قطر کا بائیکاٹ بھی۔ محمد بن سلمان قطر کے امیر کو بتانا چاہتے ہیں کہ خطے اور خاص طور پر عرب دنیا میں سعودی عرب کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا آغاز

نئے سعودی کراون پرنس کا ایران کے خلاف سخت موقف انہیں اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ کے مزید قریب کر دے گا۔

ایران کا شام تک زمینی رابطہ قائم کرنے کا عشروں پرانا خواب مکمل ہونے والا ہے۔ ایرانی ملیشیا گروپ شام کی سرحد سے منسلک باعج نامی داعش کے زیر کنٹرول آخری عراقی علاقے پر قبضہ کرنے کے قریب ہیں۔ اسے نہ تو سعودی عرب پسند کرے گا اور نہ ہی اسرائیل کہ ایران کو شام اور پھر حزب اللہ تک براہ راست زمینی رسائی ملے۔ یہ دونوں ملک اسے روکنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

نئے کراون پرنس پہلے ہی خطے میں روسی اثرو رسوخ کم کرنے، صدر بشار الاسد حکومت کے خاتمے، داعش کے خلاف جنگ، حزب اللہ اور اخوان المسلمون کے خلاف اقدامات اٹھانے کی ضرورت کے حوالے سے امریکا کے ساتھ اتفاق کر چکے ہیں۔

جیو پولیٹیکل تبدیلیاں اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات

سعودی عرب خطے میں جیوپولیٹیکل حقیقتوں میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ آسان لفظوں میں نئی سرحد بندیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ مستقبل میں عراق میں تیل کی دولت سے مالا مال آزاد کردستان کی ریاست وجود میں آ سکتی ہے۔ دوسری مثال عرب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے مصر کی ہے، جو کبھی اس خطے کا طاقتور ملک ہوتا تھا لیکن اب ریاض حکومت کا مقروض ہو چکا ہے۔ اسی مالی امداد کے بدلے مصر نے حال ہی میں بحیرہ احمر کے انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل دو جزیرے تیران اور صنافیر سعودی عرب کے حوالے کیے ہیں۔
مصر نے ان دونوں جزائر پر ریاض کی مدد سے 1950 میں قبضہ کیا تھا تاکہ اسرائیل کا بحیرہ احمر تک راستہ روکا جا سکے۔

پھر اسرائیل اور مصر کے مابین 1978 میں کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ ہوا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ یہ جزائر جس کسی کے بھی پاس ہوئے، وہ اسرائیل کے فوجی اور سول بحری جہازوں کو نہیں روکے گا۔

اب نتیجتا محمد بن سلمان کے فوجیوں کو اسرائیلی جہازوں کو راستہ دیتے ہوئے ہاتھ ہلانا پڑا کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ تجارتی روابط کا آغاز ہے۔ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن محمد بن سلمان کو اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ محمد بن سلمان گزشتہ چند برسوں میں متعدد مرتبہ اسرائیلی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

چند دن پہلے اسرائیلی چینل ٹو نے سعودی عرب کے پالیسی اینالسٹ عبدالحمید حکیم کا جدہ میں انٹرویو کیا ہے۔ حکیم کو حکومتی میڈیا میں اہم اور سرکردہ شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن سعودی عرب میں ان کے اسرائیل کے حق میں دیے گئے انٹرویو کا کوئی رد عمل نہیں آیا اور ایسا انٹرویو سعودی عرب میں اعلی حکام کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح غیر متوقع طور پر روزنامہ الریاض میں ایک کالم اسرائیل کے حق میں شائع ہوا ہے۔ روزنامہ الریاض حکومتی قربت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کالم میں اسرائیل کے مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کی تعریف کی گئی اور یہ لکھا گیا کہ ” اسرائیل کو بے جا شیطانی” ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اصل مسئلہ ایران ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل چند روز پہلے سعودی عرب کو تجارتی تعلقات شروع کرنے کی پیش کش کر چکا ہے اور سعودی حکام کو اسرائیل کے دورے کی دعوت بھی دے چکا ہے۔

کیا ایران اور سعودی عرب کے خواب مکمل ہوں گے ؟

سوال یہ ہے کہ کیا اس خطے میں حکمرانی کے ایرانی اور سعودی خواب مکمل ہو پائیں گے یا اس کا نتیجہ صرف خون کی بہتی ہوئی ندیوں کے نتیجے میں نکلے گا؟

یہ باراک اوباما تھے، جنہوں نے ایران کی طرف جھکاو ظاہر کیا اور یہ نعرہ لگایا کہ سعودی عرب کو خطے میں اب خود قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایران کی طرف جھکاو نے سعودی عرب کو خوفزدہ بھی کیا اور قائدانہ کردار ادا کرنے کی خواہش سعودی عرب میں اسلام کے وجود کے ساتھ وابستہ ہے کیوں کہ مسلمانوں کے مرکزی مقدس مقامات وہاں پر ہیں۔

اس خواہش کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے، اس کا اندازہ تاریخ پر نظر ڈالنے سے بخوبی سمجھ آ سکتا ہے۔

اکتوبر 1915ء میں مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہینری میک موہن نے آخری شریفِ مکہ ثابت ہونے والے حسین بن علی کو یہ پیش کش کی کہ اگر عربوں نے برطانیہ کی حمایت کی تو وہ ایک عرب سلطنت کے قیام میں شریف حسین کی مدد کریں گے۔ برطانیہ نے یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ شریف حسین کی مرضی کے مطابق مخصوص عرب علاقوں کو اس کی سلطنت میں شامل کیا جائے گا۔
یہ اتحاد واقعی قائم ہوا۔ اس وقت عربوں کا رہنما حسین بھی علی کا بیٹا فیصل بن حسین تھا۔ فیصل بن حسین نے برطانوی ایجنٹ تھامس ایڈروڈ لارنس ( لارنس آف عریبیہ) کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑائی کی اور ترکوں کو واقعی شکست دے دی۔
لارنس آف عریبیہ اپنی سوانح عمری ” سیون پلرز آف ویزڈم” میں لکھتے ہیں کہ برطانیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ شریف مکہ کو حجاز سے باہر کوئی اہمیت نہیں دیتا اور عرب خطے پر حکمرانی اس کے بس کی بات نہیں لیکن اپنے مفادات کے لیے برطانیہ انہیں سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیتا رہا۔پہلی عالمی جنگ کے بعد نئے نظام اور تقسیم سے متعلق مذاکرات کا آغاز ’پیرس امن کانفرس‘ میں ہوا۔ فیصل نے اس کانفرنس میں عربوں کے مطالبات پیش کیے اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ یقین دہانی کے مطابق عرب سلطنت کے قیام میں ان کی مدد کی جائے۔

لیکن فیصل غلطی پر تھا۔ فرانس اور برطانیہ اپنے سائیکس پیکو معاہدے پر قائم رہے اور ایک عرب سلطنت اور خطے پر حکمرانی کا شریف مکہ کا خواب ادھورا رہا۔ یہ خطہ برطانیہ اور فرانس نے اپنی مرضی سے تقسیم کیا۔

اس وقت ترک اور شریف مکہ آمنے سامنے تھے۔ آج آل سعود اور ایران آمنے سامنے ہیں اور دونوں میں ہی یہ صلاحیت نہیں کہ وہ خطے کو کنٹرول کر سکیں لیکن خون دونوں ہی بہا سکتے ہیں۔ جب تقسیم کی باری آئے گی تو ماضی کی طرح ان کا کردار شاید نہ ہونے کے برابر رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے