گلگت : شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے : گلگت کی تباہی کا ذمہ دار کون

[pullquote]ضلع گلگت کا تعارف اور محل وقوع [/pullquote]

گلگت صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ ڈسٹرکٹ گلگت وادی بگروٹ ، جگلوٹ، دنیور ، سلطان آباد ، نلتر پیک اور نومل ویلی پر مشتمل ہے۔یہ شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے۔ 4 لاکھ آبادی پر مشتمل یہ ضلع مشرق میں کارگل شمال میں چین شمال مغرب میں افغانستان مغرب میں چترال اور جنوب مشرق میں بلتستان سے جڑا ہوا ہے ۔ دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم اس کے قریب ہی ہے۔ یہاں کی زبان شینا ہے ، لیکن  اردو عام سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ شہر گلگت صوبہ گلگت بلستان کا دارالحکومت ہے۔ تمام سرکاری مشینری کے دفاتر اور گلگت بلتستان اسمبلی اسی شہر میں ہیں۔ اسی طرح یہ شہر چین کے ساتھ تجارت کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے ۔ چین کے ساتھ زمینی تجارت سے منسلک تاجر دنیا بھر سے آ کر یہاں ہی ڈیرہ ڈالتے ہیں ۔ دریائے گلگت کے سنگم پر واقع شہر میں چار سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی ،شیعہ اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں ۔ گزشتہ کچھ عرصے میں شہر فرقہ وارانہ تصادم سے محفوظ رہا ہے بہر حال ماضی میں سنی اور شیعہ مسالک کے درمیان کئی مرتبہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس کی وجہ سے وہاں کرفیو بھی لگانا پڑا۔

[pullquote]گلگت کی سیاست [/pullquote]

یہ علاقے تین انتخابی حلقوں پر مشتمل ہیں ۔ گزشتہ دونوں انتخابات میں ان تینوں سیٹوں پر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا ۔ 2015 کے انتخابات میں ن لیگ کے امیدواروں نے تینوں سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ GB-2 سے کامیابی حاصل کرنے والے حافظ حفیظ الرحمن وزارت اعلی کے منصب پر فائز ہوئے ۔

[pullquote]انفراسٹکچر کے مسائل[/pullquote]

دارلحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ گلگت سیا حتی اور کاروباری مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں ایک جدید انفراسٹکچر ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ سابقہ دور حکومت میں شہر میں کئی ترقیاتی کام ہو ئے تاہم اب بھی اکثر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ گزشتہ دونوں حکومتوں میں سڑکوں کی تعمیر اور کارپٹنگ کے لئے بجٹ میں رقم مختص کی جاتی رہی لیکن زیادہ تر علاقوں میں سڑکوں کی مرمت نہیں ہو سکی . اندرون شہر کی سمیت ضلع کے دیگر علاقوں کے اندر بھی سڑکوں اور گلیوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے ۔ انفراسٹکچر کے حوالے سے دوسرا اہم مسئلہ ٹاؤن پلاننگ کے بغیر ہوٹلوں ، پلازوں اور شاپنگ مالز کی بے ہنگم تعمیر ہے ۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بہتات ہے . پورے ملک سمیت گلگت بلتستان سے روزانہ ہزاروں لوگ گلگت آتے ہیں . یہاں پلازے بغیر پارکنگ کے بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سے شہری گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی کر کے ٹریفک کے لیے مسائل پیدا کر دیتے ہیں . ٹریفک پلان کے لئے ماضی میں لاکھوں روپے مختص کئے گئے ۔ لیکن انجینئرنگ پلان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ گلگت ائیرپورٹ بھی شہر ی آبادی میں ہے ۔ جس کی وجہ سے ائرپورٹ کے آس پاس رہنے والوں کی ذندگی پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ جس روز فلائٹ ہوتی ہے اس روز نا صرف قریبی آبادی میں زلزلہ محسوس ہوتا ہے بلکہ ائیر پورٹ کے قریب بسنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں کی دیواروں میں دڑایں پڑ چکی ہیں .پر سکون وادی میں جہاز کی زور دار آوازوں سے قریبی آبادی کے کئی مکین دوسرے علاقوں میں جا بسے ہیں .1949میں تعمیر ہونے والے ائیرپورٹ کے لئے 14سوکنال زمین فراہم کرنے والے 128گھرانوں کو آج تک معاوضے ادا نہیں کئے گئے ہیں اور وہ آج کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں . وفاقی محتسب کی طرف سے متاثرین کے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود متاثرین کو معاوضے ادا نہیں ہوئے ۔

[pullquote]پانی اور بجلی کے مسائل[/pullquote]

گنجان آباد ہونے کی وجہ سے یہ ضلع پانی اورنکاسی آب کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ دریائے گلگت کا پانی ضلع کے بہت سے علاقوں میں پینے کے لئے استعال ہوتا ہے ۔ جب کہ دریا کے اس پار شہری آبادی کا سارا فضلہ اسی دریا میں بہایاجاتا ہے ۔ گلگت بلتستان میں بجٹ کا سب سے کم حصہ صاف پانی کی فراہمی و نکاسی آب کے لئے خرچ ہوتا ہیں . نکاسی آب کا نظام نہ ہونے سے ضلع میں ہر سال سینکڑوں بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری گلگت کی رپورٹ کے مطابق نہ صرف دریا کا پانی مضر صحت ہے بلکہ دیہی علاقوں میں استعمال ہونے والا ندی نالوں کا پانی بھی صحت کے لئے مفید نہیں ہے ۔ضلع گلگت کی بڑی آبادی آلودہ پانی کا استعمال کر رہی ہے ۔ ۔ دریا کا گدلا اور آلودہ پانی استعمال کر کے عوام مختلف وبائی امراض جن میں ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ہیضہ اور یرقان جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح شہری آبادی کو پانی پہنچانے والے ٹینکس بھی غیر محفوظ ہیں ۔ ان ٹینکوں کی نہ تو صفائی ہوتی ہے اور نہ ہی ان میں پانی فلٹر کرنے کا انتظام ہے ۔ دریائے گلگت میں آبی آلودگی کی وجہ سے آبی حیات بھی خطرے سے دو چار ہے۔ گلگت شہر میں کنوداس ، سکارکوئی اور نگرکالونی کے مکینوں کو پانی فراہم کرنے کیلئے 52کروڑ کا ایک منصوبہ زیرتعمیر ہے، جس میں صاف اور شفاف پانی کی فراہمی مکمن بنانے کے لئے کوشش کی جارہی ہے جدیدمشینری کے زریعے دریائے گلگت سے لفٹ ہونے والے پانی کو فلٹر کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔دنیور میں پانی کی فراہمی کے ایک بڑے منصوبے پر کام آخری مراحل میں ہے ۔

ضلع گلگت میں بجلی کی فراہمی کا دارومدار ندی نالوں پر تعمیر کئے گئے چھوٹے بجلی گھروں پر ہے ۔ جو موسم کی تبدیلیوں کی وجہ سے سال میں کئی دفعہ متاثر ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ضلع کو 22 سے 24 گھنٹوں تک بجلی کی سپلائی معطل رہتی ہے ۔ خاص طور پر سردیوں میں جب بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے ۔ تو نالوں میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے ۔ اور لوڈ شیدنگ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ۔ جب کہ مون سون کے دوران بارشوں کی وجہ سے سیلابی ریلے اس نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اس لئے مون سون میں بھی بجلی کی سپلائی بری حد تک متاثر ہوتی ہے ۔ چونکہ نالوں پر بنے بجلی گھر ہر سال متاثر ہوتے ہیں اور پھر ان کی مرمت کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں تاہم کسی حکومت نے دریا پر پن بجلی منصوبہ نہیں بنایا.

[pullquote]تعلیم کے مسائل [/pullquote]

گلگت کے سرکاری تعلیمی ادارےبھی پینے کے صاف پانی ، واش رومز کی کمی اور کلاس رومز کی کمی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ اساتذہ کی تعیناتی میں سفارش کا کلچر عام ہے ۔ اقربا پرورری ، سفارش اور کرپشن نے تعلیمی شعبے کو سخت متاثر کیا ہے ۔ ضلع گلگت کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بچوں کو میٹرک تک تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہے ۔ طلباء و طالبات کو تعلیم کی غرض سے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ تعلیمی حوالے سے ضلع دو بڑے مسائل کا شکار ہے ۔ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی اور ہائر ایجوکیشن کے لئے معیاری اداروں کا فقدان ۔ان مسائل کی وجہ سے غریب گھرانوں کے بچے اعلی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جب کہ دوسرے طلباء و طالبات کو پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ گلگت میں قراقرم انٹرنیشل یونیورسٹی قائم ہے لیکن اس میں تعمیرات سمیت کئی شعبے اب تک قائم نہیں کیے گئے . دوسرا پورے گلگت بلتستان میں ایک بھی میڈیکل کالج یا انجنئیرنگ یونیورسٹی موجود نہیں . بہر حال یہ بات خوش آئند ہے کہ پورے گلگت بلتستان میں شرح تعلیم پاکستان کے دیگر علاقوں سے پھر بھی بہتر ہے ۔

[pullquote]صحت کے مسائل[/pullquote]

ضلع گلگت میں دو جنرل ہسپتال ہیں ۔ اسی طرح خواتین کے لئے الگ سے دو ہسپتال ہیں۔ نجی شعبے میں بھی کئی ہسپتال کام کر رہے ہیں ۔ تاہم سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہسپتالوں میں ایم آر آئی اور ڈائلیسز کی مشینین دستیاب نہیں ہیں۔ اگر کہیں جدید مشینری موجود بھی ہے تو اس کو آپریٹ کرنے کے لئے ٹیکنیکل سٹاف موجود نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے اور دیگر میڈیکل ٹیسٹس کے لئے پرائیویٹ لیبارٹریوں کو رخ کرنا پڑتا ہے ۔ اسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں ۔ اس کے لیے حکومت خصوصی مراعات دے کر ڈاکٹرز کو بھرتی کرتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹرز ایک بلیک میلنگ مافیا بن گیا ہے ۔ کیونکہ حکومت ان کے سامنے مجبور ہے ۔ ضلع کے باقی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز موجود ہیں ۔ لیکن وہاں ڈاکٹرز نہیں ہیں ۔ اسی طرح اسپتالوں میں ادویات بھی دستیاب نہیں ہے ۔

[pullquote]پارلیمان اور عوامی مسائل [/pullquote]

حال ہی میں ختم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے بارے میں لوگوں کا تاثر ملا جلا ہے۔ گلگت کے تمام تین حلقوں پر ن لیگ کے امیدوار منتخب ہوئے اور وزارت اعلی کا منصب بھی جی بی -2 کے حلقے سے جیتنے والے حافظ حفیظ الرحمان کے پاس رہا ۔ اس لئے لوگوں کی ان سے ذیادہ امیدیں وابستہ تھیں ۔ انفراسٹرکچر میں ڈیویلپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع گلگت کے عوام حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں تاہم اس دوران کئی افراد حالیہ حکومت کے اقدامات کی تعریف بھی کرتے ہیں ۔ اسی بنیاد پر 2020 کا الیکشن بھی ہونا ہے ۔ پارلیمان کے حوالے سے یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ایک بے اختیار پارلیمان ہے جس کا کنٹرول اسلام آباد کے پاس ہے ۔ اس لئے گلگت کے عوا م کے حقیقی مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب وفاق میں نمائندگی ہو گی اور صوبائی اسمبلی خود مختار ہو گی .

[pullquote]سیاحت[/pullquote]

ضلع گلگت آرکیالوجی کی سائٹس کا مرکز ہے ۔ دنیا بھر سے محقق یہاں آ کر علاقے ، مذاہب اور سماج پر تحقیق کرتے ہیں ۔ اسی طرح یہاں کی نلتر ویلی اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے ۔ جو بھی سیاح دنیا بھر سے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں ان کا پہلا سٹاپ گلگت ہی ہوتا ہے کیونکہ یہاں سے ہی دیگر علاقوں کو ٹرانسپورٹ جاتی ہے ۔ اسی طرح پاک چین کاروبار کے لئے بھی یہی روٹ استعمال ہوتا ہے ۔ ڈرائی فروٹ کی منڈیاں بھی اسی علاقے میں ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے بڑا مسئلہ انفراسٹکچر اور مناسب ٹرانسپورٹ نہ ہونا ہے ۔ اسی طرح ہوٹلنگ انڈسٹری میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ غیر تربیت یافتہ افراد ہوٹلنگ کئ شعبے سے منسلک ہیں – اسی طرح ٹوورزم انڈسٹری میں تربیت یافتہ افراد کا ہونا انتہائی اہم ہے .

[pullquote]ڈرائی فروٹ انڈسٹری [/pullquote]

گلگت شہر صوبے کے تمام ڈرائی فروٹ کے کاروبار سے منسلک لوگوں کا مرکز ہے ۔ اس شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں شجر کاری میں جدید طریقوں کا استعمال نہیں ہو رہا ہے ۔ اسی طرح فروٹس کو خشک کرنے ، ان کی پیکنگ اور ٹرانسپورٹیشن تک تمام کام روایتی طریقے سے ہو رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے نا صرف فروٹ کی کوالٹی خراب ہوتی ہے بلکہ بہت سارا فروٹ ضائع بھی ہو جاتا ہے ۔ اس لئے یہ اہم ہے کہ سرکار کی طرف سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے .

[pullquote]ضلع گلگت کے مسائل کا تجویز کیا گیا حل [/pullquote]

دریا پر پاور ہاؤس بنایا جائے اور ندی نالوں پر تعمیر کیئے گئے بجلی گھروں کا مناسب بندوبست کیا جائے ۔
صاف پانی کی فراہمی کے لئے سکیمیں بنائی جائیں ۔ چھوٹی آبادیوں میں واٹر فلٹر لگائے جائیں ۔ اسی طرح دریائے گلگت کے تحفظ کے لئے خصوصی کمیٹی بنائی جائے تاکہ اس میں سیوریج کا پانی اور فضلہ نہ ڈالا جائے ۔ ضلع میں نکاسی آب کا بندوبست کیا جائے .
مقامی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچانے میں محکمہ زراعت اپنا کردار ادا کریں۔
عوامی نمائندوں کو سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ منصوبوں کی سخت نگرانی کرنے کی جائے تاکہ منصوبوں میں کرپشن کا خاتمہ ہو سکے ۔
ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے لئے پلا ن بنایا جائے ۔ اس حوالے سے قانون سازی کی بھی ضرورت ہے ۔ وارڈن سسٹم متعارف کروایا جائے اور ٹریفک پولیس کو جدید سہولیات دی جائیں ۔
صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے ہر پارٹی کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ ہر ادارے کی ٹیم اور ہر سکول میں گراؤنڈ ہونا چاہئے۔
صحافی معاشرے کا اہم جز ہیں جو جمہوریت کو مضبوط کرنے اور احتسابی عمل کو زندہ رکھنے میں حکومت کے مددگار ہوتے ہیں ۔ اس لئے صحافیوں کی تربیتی ورکشاپس منعقد کی جائیں
ٹاؤن پلاننگ پر عملدرآمد کرایا جائے۔
صحت کے شعبے میں ڈاکٹرز ، طبی آلات اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی کو دور کیا جائے .
تعلیم کے شعبے میں پہلے سے موجود انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی ضرورت ہے. اسکولوں میں اساتذہ کی تعناتیوں سمیت قراقرم یونیورسٹی میں تمام شعبے قائم کیے جائیں .
گلگت میں انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن کا نظام بہت کمزور ہے ۔ 4 جی انٹرنیٹ کے لئے تمام کمپنیوں کو اجازت دی جائے
مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے تحقیق کو فروغ دیا جائے.

نوٹ : یہ مضمون آئی بی سی اردو کے زیر اہتمام فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ کے دوران گلگت کے صحافیوں شبیر میر ، مہتاب الرحمان ، کرن قاسم، فہیم اختر اور امجد قمرکی معاونت سے تیار کیا گیا . ورکشاپ میں انتخابات سے پہلے "گلگت بلتستان کے ترقیاتی منشور ” کی تیاری کے بارے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا . مکالمہ کے رپورٹ آپ اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں .

۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے