صوبہ سندھ میں اقلیتوں کے مسائل اور ان کا حل

اقلیتوں کو سینیٹ آف پاکستان میں چار مخصوص نشستیں، قومی اسمبلی میں 10، اور صوبائی اسمبلیوں میں الگ بھی خصوصی نشستیں دی گئی ہیں۔ اقلیتوں کی کل 23 نشستیں ہیں، جن میں بلوچستان میں 3، کے پی کے میں 3، پنجاب میں 8 اور صوبہ سندھ میں 9 نشستیں مخصوص ہیں۔ اقلیتوں کو قومی دھارے میں لاتے ہوئے تعلیم، ملازمتوں اور کاروبار کے مواقع مساوی حقوق فراہم کرنے کے لیے ہیں۔

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع ہے۔ اس پہ لکھنے والے ، آواز اٹھانے والے حتیٰ کہ ہر اس شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے، جو اقلیتوں کے لیے ذاتی طور پر کوئی مثبت کام کر دے۔ حالانکہ پاکستان کا آئین اور اسلام کی تعلیمات اقلیتوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، بشمول مذہب، اظہار رائے اور انجمن کی آزادی۔ تاہم، عملی طور پر، اقلیتوں کو معاشرے کے بعض طبقات کی طرف سے مختلف قسم کے امتیازی سلوک، تشدد اور ظلم و ستم کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔

اس معاملے میں اگر صوبہ سندھ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں سب سے زیادہ اقلیتی برادری رہتی ہے، جن میں ہندو مذہب کے پیروکار لوگوں زیادہ ہیں۔ ماضی میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے تو منفی رد عمل تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس حکام کی طرف سے بھی کوئی مناسب کاروائی نہیں کی گئی ہے ۔ سندھ میں ایسے معاملات میں اکثر مناسب تحفظ فراہم کرنے یا مجرموں کو جواب دہ ٹھہرانے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام رہے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال ان تاریخی، سیاسی اور سماجی عوامل سے متاثر ہوئی ہے ،جنہوں نے ملک کے تشخص اور نظریے کو تشکیل دیا ہے۔

صوبہ سندھ میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک بڑا چیلنج وڈیرہ شاہی ڈھانچہ بھی ہے، جس کی وجہ سے اندرون سندھ میں نا خوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ عبادت گاہوں کی حفاظت ، اقلیتوں کی ذاتی و مذہبی تحفظ کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ یہاں ایک اور ہے۔ جو کہ جبری مذہبی تبدیلی اور کم عمری کی شادی ہے ۔ یہاں وڈیرہ راج کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔ جن وڈیروں کے سائے تلے یہ کام ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق عمومی طور پر حکمران جماعت سے ہوتا ہے۔ اور پولیس خود ان کو تحفظ فراہم کر رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارا آئین ذات پات، نسل اور رنگ کے امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کو سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی ہماری قومی شناخت کی واضح خصوصیت ہے۔ لیکن یہ ابھی تک اندرون سندھ میں نا ممکن ہے ۔

ہندو برادری میں اندرون سندھ میں رہ کر ترقی کرنے والے ضلع گھوٹکی کے باشندے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں تعلیم و صحت کی سہولیات باقی صوبائی نسبت سے زیادہ ہے یہاں پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ قانون کی پاسداری خود بھی کرتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو شعور بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ سارا سفر خود طے کیا ہے، اور محنت و لگن کے ساتھ معاشرے کوایک مثالی معاشرہ بنا دیا ہے ۔ صوبہ سندھ میں رہنے والی باقی اقلیتی برادری کے لوگ ان سے سبق حاصل کریں اور آگے بڑھیں۔ سخت محنت کریں ۔

پاکستان کی اقلیتی برادریاں پاکستانی قومیت کا بنیادی حصہ ہیں۔ دفاع، تعلیم، صحت اور سماجی خدمت سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں غیر مسلموں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور ضلع گھوٹکی کے نوجوانوں کے نقش قدم پر چل کر آئندہ بھی یہ سنہری کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اس کا سب سے پہلا حل صرف اور صرف تعلیم و شعور ہے۔

جب کہ دوسرا حل انصاف ہے۔ معاشرے میں جب علم ہو گا تو آہستہ آہستہ انصاف خود ہی نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ جس کی واضح مثال پھر ضلع گھوٹکی ہی ہے۔ جب کہ تیسری اہم ذمہ داری اور اس کا حل علماء کرام ہیں کہ وہ حقیقی اسلامی تعلیمات سے عوام الناس کو روشناس کروا کر معاشرے سے مذہبی اقلیتوں کی نوجوان اور کم عمر لڑکیوں کی زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے بعد شادی، توہین رسالت اور توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال اور عقیدے کی جبری تبدیلی کو روکنے اور اس حوالے سے سزا دینے کے لیے قانون سازی کے مطالبے کا بھر پور ساتھ دیں۔

جب کہ حکومتی سطح پر بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پہ سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، مزید جو اس میں کمی بیشی موجود ہے اسے دور جر کے ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پہ سختی سے عمل پیرا ہونے کا پابند کیا جائے تو اس کے نتائج ملکی و بین الاقوامی سطح پر نا صرف پاکستان کے بہتر تشخص کے طور پر سامنے آئیں گے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا ایک بہترین مقام بن جائے گا۔ اور پاکستان کے تمام حکمران دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے