مسلمان ، زندہ اور مُردے

آقائے مؤید الاسلام جلال الدین طہرانی ایران کے ایک مشہور خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ناصرالدین شاہ قاچار کے عہد حکومت میں پیدا ہونے والے جمہوریت پسند گروپ میں شامل تھے۔شاہ کے وفاداروں اور حکام کو ان کی سرگرمیاں پسند نہ آئیں اور انھوں نے گرفتاری کے احکام جاری کیے تو ہندوستان اٹھ آئے اور یہاں انگریز کی حکومت تھی۔کلکتہ ( تب وہ کولکتہ نہیں ہوا تھا)میں مقیم
ہوئے اور ”حبل المتین” کے نام سے اخبار جاری کیا۔روشن خیال دانشور تھے۔اردو اور فارسی کے عالم اور اسلامی دنیا کی سیاسیات ۔تاریخ اور فلسفے پر گہری نظر رکھتے تھے۔انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں کوئی چالیس سال تک کلکتے میں مقیم رہےتھے۔ان کا 1932ء میں انتقال ہوا تھا۔

مرحوم پر مولانا چراغ حسن حسرت کا مضمون خاصے کی چیز ہے۔وہ ان کے خاکوں اور شخصی مضامین کے مجموعے ”مردم دیدہ ” میں شامل ہے۔اس تعارف کا مقصد ان کے افکار سے مختصراً احباب کو متعارف کرانا ہے۔ان کے چید چیدہ اقوال اور افکار ملاحظہ کیجیے:
”مسلمانوں کو قُبوں ،میناروں اور قبروں سے جتنا شغف ہے،کاش اس سے آدھا زندہ انسانوں سے ہوتا۔تم مُردوں کو روتے ہو اور مجھے صرف زندوں کی فکر ہے”۔

”جن لوگوں کے باہمی جھگڑوں نے تشیّع کو پیدا کیا ،وہ بھی نہ رہے،جس خلافت کے لیے جھگڑا تھا ،وہ بھی ختم ہوگئی ،اب شیعیت کیسی؟”
”ہندوستانی مسلمانوں کا حقوق کی تقسیم کے لیے سمجھوتے کرنا ہی بے سود ہے۔مسلمانوں کو ہرچیز میں (کانگریس اور انگریز حکومت سے) نصف کا مطالبہ کرنا چاہیے۔آدھا مانگیں گے تو بڑی ردوقدح کے بعد ایک تہائی ملے گا۔تہائی سے شروع کیا تو دس سال کے بعد چوتھائی پر آرہو گے”( تقسیم ہند کے وقت یہی ہوا تھا)

”ایران اور ہندوستان دونوں کو شاعری نے ڈبویا ہے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے