مملکت خداداد کے ایک میجر(ر) نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرایک کہانی سنائی جس نے ہمارے معاشرے میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا۔ ایسے تو موصوف کئی کہانیوں کے مصنف ہیں لیکن اس کہانی سے اُن کے دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور آج کل یہی ہر شعبے سے وابستہ افراد کا ہدف ہے۔ پھر چاہے کوئی سموسہ لئے بیٹھا ڈاکٹر ہو یا کہانی بُنتا میجر(ر) سب کو ویوز چاہیئں۔ ویوز مل جانے کے بعد معاشرہ کچھ اس طرح سے منقسم ہو جاتا ہے کہ کچھ طبقات اس کے حق میں اور کچھ خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی بحث کے نہ رکنے والے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہمارے ارد گرد کئی ایسے لوگ ہیں جو اس کہانی گری اور معاشرے میں ہوتی تقسیم سے فائدے کے ساتھ نقصانات کے پلندے اُٹھائے زندگیوں کو رواں دواں کئے ہوئے ہیں۔ ایک مشہور حکایت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی یا کمیونیکشن ماڈل کی لانچنگ سے پہلے اس کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے پھر اس ٹیکنالوجی کی لانچنگ ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمیں اس وقت ہوش آتا ہے جب وہ ٹیکنالوجی یا کمیونیکیشن ماڈل ہمارے معاشرے میں تباہی کی داستانیں رقم کرنے لگتا ہے۔ میجر(ر) کی کہانی بھی اُنہیں داستانوں میں سے ایک ہے۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی چار ہونہار اور قابل اداکارائیں ماہرہ، مہوش اور سجل، کبریٰ کو اس بار میجر(ر) نے اپنی کہانی میں ولن کا کردار دیا۔ اس کے بعد کردار کشی کے وہ مناظر دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو ملے کہ الامان! میجر(ر) کو ویوز مل گئے اور اُن کا مسئلہ حل ہو گیا۔ دوسری طرف سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ہر کسی نے ویوز کے چکر میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے خواہ وہ معزز صحافیوں کے اخباری صفحات ہوں یا دہائیوں سے ُملکی صحافت کو کندھوں پر اُٹھانے کے دعوے دار ہوں۔ چند ساعتوں کے لئے خدا کے حضور پیش ہوں اور سوچیں کہ کیا ایسے ایک اجنبی، ہماری ماں یا بہن کے لئے ایسی کہانی بُنے اور لوگ اُسے سچ مان کر کردار کشی کریں تو کیسے احساسات ہوں گے؟ مجھے یہ واقعات دیکھ کر گزشتہ کئی کرداروں کے ہتک عزت پر مبنی کیسز یاد آ گئے۔ یہاں سے آگے ہمارے نظام انصاف کی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق ہتک عزت کی سزا یہ ہے کہ جو کوئی بھی دوسرے کی توہین کرے اسے قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت دو سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ اب اس کو کتنی سادگی یا پیچیدگی سے فیصلے تک پہنچانا ہے وہ ہمارےعدالتی نظام پر منحصر ہے۔ بدقسمتی سے اس نظام میں تفتیشی مراحل کے پیچ و خم کے بعد تاخیری حربوں کا ایک وسیع جال بچھا دیا جاتا ہے۔ جس سے کیس کو معمہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب مدعی اور ملزم دونوں ہی کیس کی پیروی کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں عدالتی نظام پر اعتماد میں کمی کے ساتھ ساتھ کیس کے فیصلے کی صورت جو ذہنی تبدیلی واقعی ہونی ہوتی ہے وہ بھی معدوم ہو کر رہ جاتی ہے۔ لہذا معاشرے کے اس بگاڑ میں ہمارے عدالتی نظام کی رکاوٹیں بھی کرم فرما ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی خاتون کو آن لائن ہراساں کرنا، اس کے خلاف منفی مہم چلانا یا اس پر الزامات عائد کرتے ہوئے اس کی کردار کشی کرنا ایک عام رحجان بن چکا ہے۔ لیکن یہاں پر بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ بغیر ثبوت کسی کی بات پر اندھا دھن اعتبار کیسے کر لیتے ہیں؟ اس کی سادہ وجہ یہی ہے لوگوں کو مرچ مسالے والی کہانی چاہئے جو میجر(ر) نے پیش کر دی اور ہمارے سوشل میڈیا کے مجاہدوں نے اپنی بندوقیں تان لیں۔ حالانکہ ہمارے مردانہ غلبہ والے اور پدرانہ معاشرے میں پلنے بڑھنے والی پاکستانی شوبز انڈسٹری میں جتنی خدمات ان چار اداکاراؤں نے دی ہیں ان میں سے ہر ایک غیر معمولی عزت کی مستحق ہے۔ لیکن ہم نے انہیں بے بس کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
سب کے سب کو تعلیم دی جائے یا ذہنی مریض قرار دے دیا جائے فی زمانہ یہ دونوں ممکنات میں سے نہیں ہیں۔ البتہ ہمارے پاس قوانین ہیں جن پر عملدرآمد کروا کر اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ تفتیش کے لئے وسائل کی فراہمی حکومت وقت کا کام ہے تا کہ تفتیشی مرحلے میں کوئی سقم نہ رہے۔ ساتھ ہی ایف آئی اے کو اپنا کردار مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے سوشل میڈیا پر موجود کالی بھیڑوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ عدالتوں میں ہراسانی اور ہتک عزت کے کیسیز کو اولین بنیادوں پر سُنا جائے تا کہ معاشرے پر ان کے فیصلوں کا خوف پیدا ہو۔ تا کہ آئندہ کوئی بھی نوجوان کسی میجر(ر) یا کسی بھی یو ٹیوبر کی مرچ مسالے والی کہانی کو سچ مان کر ہماری ماں، بہن یا بیٹی کے خلاف بے بنیاد کیمپین کا حصہ نہ بن جائے۔