میں اس امت کو آج تک سمجھ نہی سکا. کہتی ہے کہ حدیث رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ امت کا اختلاف رحمت ہے.
پھر میں نے دیکھا کہ اس امت نے اختلاف کے نام پر ایک دوسرے کی تکفیر کی .
مسجدیں الگ کر لیں .
بزرگ الگ کر لیے.
نعرے الگ بنائے گئے.
فقہ اپنی اپنی بنا لی.
تاریخ اپنی اپنی گھڑ لی.
حدیثیں وضع کیں.
لباس تک مخصوص کر لئے.
کالر اور بین تک کو مسلک کی نشانی بنا دیا.
مونچھیں استرے سے صاف کرنے اور قینچی سے کتروانے کو مسلکی شناخت بنا دیا گیا.
جالی والی سفید ٹوپی اور عماموں سے مسلک کی شناخت ہونے لگی.
عطر کی دکانیں مسلکوں کی نمائندگی کرنا شروع ہو گئیں.
شہد اسلامی ہو گئے.
مسواک مسلکی ہو گئی.
طب کے نسخے مذہبی ہو گئے.
ملاوٹ شدہ دودھ بیچا تو ھذا میں فضل ربی دکان پر لکھنا نہ بھولے.
اینٹ اور برادے کو ہلدی مرچ بنا کر اوپر غوث اعظم کریانہ سٹور لکھا.
ملاوٹ شدہ مال بیچا لیکن میلاد کے جلسے کے لئے فنڈ بھی ضرور دیا.
مضاربت کا فراڈکیا لیکن رائے ونڈ اجتماع میں بھر پور شرکت کی.
شیخ نمر کی پھانسی پر دکھی تھے لیکن ملک اسحاق کے قتل پر جشن منایا ۔
ممتاز قادری کی پھانسی ظلم قرار پائی لیکن سلمان تاثیر کا قتل جائز قرار دیا ۔
ایک دوسرے کے عقیدے ، عصمتیں ،عزتیں ، املاک سب جائز قرار پائے ۔
آپس میں لڑے اور گلے کاٹ دالے .
میں نے گلو گیر ہو کر حضرت کا دامن پکڑا اور پوچھ بیٹھا کہ
حضرت
کیوں لڑے تھے ؟
ایک دوسرے کی تکفیر کیوں کی ؟
ایک دوسرے کی نیتوں پر شک کیوں کیا تھا؟
ایک دوسرے کے بچے کیوں مارے تھے ؟
ایک دوسرے کا خون کیوں جائز قرار دیا تھا؟
حضرت نے ایک بار سر جھٹکا.
ان کے چمکدار سفید عمامےنے قلابازی کھائی.
ان کے مبارک ماتھے پر موتیوں کی طرح پسینے کے چند قطرے نمودار ہوئے.
انہوں نے اپنی مہندی میں رنگی ہوئی ڈاڑھی پر انگوٹھیوں والا ہاتھ پھیرا.
ان کی سرمے سے اٹی آنکھوں کا کرینہ کھلا.
رگوں پر مس کی گئی عطر پرجوش پسینے میں ملی اور خوشبو نے انگڑائی لی ۔
ان کے گالوں کا سرخ لالی نے محاصرہ کیا.
ان کے لب کپکپائے اور دہن شیرین سے جو لفظ نکلے. انہوں نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا.
فصاحت و بلاغت کا ایفل ٹاور گویا ہوا.
فرمایا .
ارے اور
دھریے.دجال ، یہودی، جاہل . منکر حدیث
امت کا اختلاف رحمت ہوتا ہے، اور یہ حدیث رسول ہے.
ظاہر میں ماشاء اللہ کے سوا کیا کہہ سکتا تھا.
اور میں کر بھی کیا سکتا تھا.