بھگوان کی قسم ، یہ میں نے نہیں کیا .

گاؤں میں دو بندوں کی کسی بات پر دشمنی چل رہی تھی ۔

ایک طاقتور تھا اور دوسرا زرا کمزور تھا ۔ کمزور طاقت ورسے بچتا رہتا تھا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی تھی ۔

ایک روز طاقتور باہر سے آیا تو گاؤں کی حجرے کی طرف چلا گیا ۔ اس نے دیکھا کہ کمزور حجرے میں پڑی ایک چارپائی پر سویا ہوا ہے ۔ اور بھی کئی افراد وہاں موجود تھے ۔ طاقتور نے کمزورکو سوتا دیکھ کر موقع غنیمت جانا اورحجرے کے کونے میں پڑا ڈنڈا اٹھایا، سیدھا جا کر سوئے ہوئے کمزورکی ٹانگوں پر دے مارا اور اس کی ٹانگ توڑ دی ۔
سارے لوگ غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پوچھا کیوں مارا اسے ؟
تو اس نے فورا کہا کہ
دیکھتےنہیں اس نے ٹانگیں قبلے کی طرف کی ہوئی تھیں ۔
لوگوں نے کہا کہ قبلہ تو اس طرف نہیں .

طاقتور نے کہا کہ لیکن یہ اپنی ٹانگیں قبلے کی طرف موڑ تو سکتا تھا نا، میں نے اس مسئلے کی کمر ہی توڑ دی ہے .
اب اس سے قبلے کی توہین ہو ہی نہیں سکتی . اس میں اسی کا فائدہ ہوا ہے . میں نے تو صرف ٹانگ توڑی ہے ، کوئی زیادہ غیرت مند مسلمان ہوتا تو قتل کر دیتا.

چند بزرگوں نے اسے غصے سے دیکھا تو کہنے لگا .
اب میں اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ میرے سامنے قبلے کی توہین ہورہی ہو اور میں تم لوگوں کی طرح خاموش رہوں ۔

سامنے والے چارپائی پر اس کا باپ لیٹا ہوا تھا جس کی ٹانگیں سیدھی قبلے کی طرف تھیں ۔
لوگوں نے کہا کہ اپنے باپ کو دیکھو ، تو اس نے کہا کہ
"میرے باپ نے بھی اس بد بخت کو دیکھ کر ٹانگیں قبلے کی طرف کی ہونگی اور یہ کہہ کر ڈنڈا پھر کمزور کے سر پر دے مارا ۔

جنید جمشید پر کراچی کے مولویوں نے جہاز میں منصوبہ بنا کر حملہ کیا تو مجھے یہ قصہ یاد آ گیا، دنیا جانتی ہے کہ یہ حملہ سیدہ عائشہ کی محبت میں نہیں بلکہ مسلکی عداوت کا اظہار تھا.

لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی .
آگے کیا ہوا ، ملاحظہ کیجئے .
جنید جمشید پر حملے کے بعد
بریلوی مسلک کے کچھ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں حالانکہ وہ ممتاز قادری کی پھانسی پر رو رہے تھے ۔
دیوبندی ناراض ہیں حالانکہ وہ سلمان تاثیر کے قتل پر خوشیاں منا رہے تھے۔
سارے نام نہاد لبڑل ، سیکولر خوش ہیں کہ مولوی آپس میں ہی لڑ پڑے ہیں ۔
شیعہ پریشان ہیں کہ اگر پاکستان میں یہ سلسلہ چل پڑا تو ان کے لیے مزید ماحول خراب ہوجائےگا .
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو جب اسلام آباد کے دیوبندی مولویوں نے گستاخ ، مرتد اور زندیق کہا تھا تو دیوبندی اسے کارنامہ سمجھ رہے تھے.
جب کراچی ائیرپورٹ پر پرویز رشید کو بریلوی علماء نے جوتا مارا اور نازیبا الفاظ کہے تو اہل مذہب بڑے خوش تھے کہ پرویز رشید کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہیے تھا.
کرکٹ ٹیم پر لاہور اور کراچی میں آوازیں کسی گئیں اور غدار ، غدار کے نعرے لگائے گئے.

تو میرے بھائیو ، دوستو ، بزرگو اور خواتین
اب زرا روح افزا میں لیمن ڈال کر ایک گلاس پئیں ، ٹھنڈے علاقوں والے دیسی مرغی کی یخنی میں کالی مرچ ڈال کر پی لیں اور سنیں .

بات یوں ہی آگے چلتی رہی تو کل کوئی نہیں بچے گا .
ہر مسلک اور فرقے کے نزدیک دوسرا فرقہ خارج از اسلام ہے ،
جہنمی اور گستاخ ہے اور یہ سب لکھایا، پڑھایا، سنایا ، سمجھایا اور طوطے کی طرح رٹوایا جاتا ہے.
شعبان کے مہینے میں مسلکی مدارس کے طلبہ کے امتحانات کے بعد تقابل ادیان اور رد فرقہ ہائے باطلہ کورسسز کا انعقاد ہوتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ دوسرا مسلک اور فرقہ مسلمان نہیں .

مسالک اور مذہبی تعلیم کے نام پر جو کچھ ہمارے بچوں کے ذہنوں میں ڈالا جا رہاہے ،یہ سب اسی کا اظہار ہے .

اب کہا جائے گا ،فلاں ایسا کر رہا ہے اور فلاں ویسا کر رہا ہے . سب ایک دوسرے پر الزام دھریں گے لیکن جس کی انگلی دوسرے پر اٹھ رہی ہے ، اس کا اپنا کردار بھی اتنا ہی گھٹیا ہے.
اس وقت ضرورت ہے کہ صرف ایک ہی انگلی اٹھے ، ایمپائر کی انگلی
جو سب جنونیوں کو اپنی ٹریننگ کے مطابق کہہ دے کہ بس کر دو بس
اگر وہ بس نہیں کر تے تو پھر مثالیں مارکیٹ میں کافی دستیاب ہیں .
بسم اللہ کیجئے.

اب زرا کان قریب کیجئے ، ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں .
اندر کی بات ،،،،

ادھر جس سیل میں ” را ” کے ایجنٹ سے تفتیش چل رہی تھی نا ، وہاں جب ٹی وی پر جنید جمشید پر حملے کی خبر چلی تو
تفتیش کاروں نے ایک بار "را” کے ایجنٹ کو گھور کے دیکھا،
اس نے دو ہاتھوں کو نمشکار کرنے کی طرز پر جوڑا
اور روتے کپکپاتے ہوئے کہنے لگا،
بے شک میں نے بڑے گھٹیا کام کئے، انتہائی کمینہ اور ذلیل آدمی ہوں
لیکن
بھگوان کی قسم
جنید جمشید پر حملہ میں نے نہیں کرایا ،
ہنڑآپنڑے کم وی میرے تے نہ پا دینڑا ۔
(اب اپنے کام بھی مجھ پہ نہ ڈال دینا )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے