ایک جوڑے کا اکلوتا بیٹا تھا جو شادی کے کئی عرصے بعد منتیں مانگ کر پیدا ہوا تھا وہ اکلوتا بیٹا جب 6 سال کی عمر کو پہنچا توکسی بیماری میں مبتلا ہوگیا جس کا علاج صبح شام انجیکشن سے کیا جانا تھا ماں اور باپ یہ برداشت بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کا اکلوتا بیٹا صبح شام انجیکشن جیسی تکلیف سے گذرے لیکن اسے بیماری میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے پھر کسی نے مشورہ دیا کہ بچے کو روز اس کی پسند کا کوئی کھلونا خرید دیا کرو وہ اس خوشی میں انجیکشن کے درد کو بھول جائیگا پھر ایسے ہی ہوا وہ روز نہیں کھلونا خریدتے اور بچہ درد سہتا انجیکشن لگوا لیتا تھا،
آج کل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اسی چھ سالہ بچہ کی حالت سے گذر رہے ہیں،عمران خان نے کوئی بیس سال پہلے کرپشن، بے انصافی، لاقانونیت، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیااور پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی بنا دی،شروع شروع میں پاکستانیوں نے عمران کو سنجیدہ تو نہ لیا لیکن جب فوجی اقتدار اور ن لیگ پیپلزپارٹی کی باری باری طاقت میں آنے کو دیکھ کر 2010-11 میں عمران خان کی باتوں پر لوگوں نے اعتبار کرنا اور انہیں سنجیدہ لینا شروع کردیا اور تو اور خیبر پختونخوا کی عوام نے تو عام انتخابات 2013میں ان کی پارٹی کو حکومت بنانے کےلئے موقع بھی فراہم کردیا جبکہ مرکز میں عمران خان کی جماعت ووٹوں کے لحاظ سے دوسری بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آئے،
یہ یقینا عمران خان کی مسلسل محنت کا ثمر اور کامیابی تھی لیکن یہیں عمران خان کا اصل امتحان شروع ہونا تھا کہ وہ بطور اپوزیشن کیسے سامنے آتےہیں انہوں نے پہلے پہل دھاندلی کو ٹارگٹ کیا 126 روز تک دھرنا دیا پھر ایسے ٹی آو آرز والا جوڈیشل انکوائری کمیشن بنوایا جس سے عمران خان کی سیاست کا بیڑا غرق ہوتا ہوتا بچا لیکن بھلا ہو الیکشن ٹربیونلز کا جنہوں نے این اے 154، 122 اور 125 میں دھاندلی ثابت کردی اب بھی وقت تھا عمران خان تھوڑا عقل کر لیتے اور عوامی مسائل پر سیاست کرتے لیکن وہ ایسا نہ کرسکے،،،
پھر قدرت نے عمران خان کو ایک اور موقع دیا پانامہ پیپرز والا جن نئے انکشافات لیکر سامنے آگیا جس نے لگ بھگ پاکستانی سیاست کا کئی روز سے منظر نامہ تبدیل کردیا ہے اب عوام ایک طرف 12 گھنٹوں سے زائد کی لوڈشیڈنگ سہہ رہے ہیں لیکن حکمران اور اپوزیشن سیاستدان پانامہ معاملہ پر ایک دوسرے کا پاجامہ اتارنے کی تگ و دو میں ہیں، بحرحال پانامہ لیکس کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان اٹھا سکتے تھے کیونکہ آف شور کمپنیاں جنہیں ہم خاموش سرمایہ کاری کا نام بھی دے سکتے ہیں کرپشن ہے جس کا آپ کو حساب کتاب نہیں دینا پڑتا،شروع شروع میں عمران خان نے اپنی بیس سالہ جماعت کے منشور اور نظریہ کے مطابق موقف اختیار کیا اور نواز شریف سے بالکل ٹھیک مطالبہ کیا کہ اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے پھر نواز شریف نے بھی بحرحال ایک اچھی چال چلی اور سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا جس میں قیام پاکستان سے لیکر اب کرپشن، کمیشن، کک بیکس، منی لانڈرنگ، قرضہ معاف کروانے اور سیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا احتساب اور تحقیقات کرنے کےلئے کمیشن بنانے کا کہہ دیا،
قدرت نے نواز شریف کے ہاتھوں ایسا کام کرا دیا جسے وہ نہ چاہتے ہوئے کر گئے کیونکہ لگ بھگ یہی وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے آج وطن عزیز کی یہ حالت ہے،میں سمجھتا تھا کہ ایسے ٹی او آرز دیکھ کر کوئی اورمانے یا نہ مانے لیکن عمران خان ضرور مانیں گے کیونکہ وہ بیس سال سے انہیں مطالبات پر سیاست کررہے تھے لیکن جب انہوں نے بیس سال بعد اپنی پارٹی کے بیسویں یوم تاسیس پراعلان کیا کہ ہم ان ٹی او آرز کو نہیں مانتے سب کی تحقیق کی بجائے صرف نواز شریف کا احتساب کیا جائے تو مجھے یوں لگا یہ پی ٹی آئی کا یوم تایسیس نہیں یوم یوٹرن ہے،خان صاحب آپ آجکل وہی بچے بنے ہوئے ہیں جو نیاکھلونا دیکھ کر انجیکشن لگوا لیتا تھا اور آپ بھی جہانگیر ترین علیم خان( جو اب آپ کی اے ٹی ایم مشینوں کے ناموں سے جانے جاتے ہیں) کی فنڈنگ سے ہونے والے جلسے دیکھ کر اپنے بیس سالہ موقف سے یوٹرن لے لیتے ہیں،
خان صاحب بدقسمتی سے آپ نے جلسے کرنے کو کھیل بنا لیا ہے اور اسی کھیل کو آپ کی مجبوری سمجھ کر چند لوگ آپ کو اپنے نظریہ سے ہٹا رہے ہیں کل جب آپ جہانگیر ترین کے ہمراہ انکی آف شور کمپنیوں پر انہیں ڈیفنڈ کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے خان صاحب آپ اپنی اے ٹی ایمز کو بچا رہے ہیں، جلسے کریں قوم کا وقت ضائع کریں لیکن یہ قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کریگی کیونکہ آپ نے قوم کو اس نہج پر لا کر یوٹرن لیا ہے جہاں آپ تو بچ جائینگے لیکن قوم کے سامنے بہت بڑی کھائی ہے جس سے نکلنا مشکل ہے،
بحرحال پانامہ لیکس کا موقعہ بھی ضائع ہوگیا تمام حکومتی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو مبارک ہو جنہوں نے مل کر اس سارے معاملہ کو بھرپور مہارت سے متنازعہ بنادیا.