حنا انور
۔ ۔ ۔
آئن سٹائن کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعات دان سمجھا جا تا ہے اور نظریہ ٔ اضافیت سا ئنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا اور یہی اس کی وجہ شہرت رہی ہے۔اس تھیوری میں اس نے خلا ،وقت اور کشش ثقل کے بارے میں لوگوں کو نئے تصوررات دئیے۔لیکن اس کی زندگی کے آخری بیس سالوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی خدمات صرف فزکس تک ہی محدو د نہیں تھیں بلکہ عوام کی بہبود کا جذبہ بھی اس کے دل کے بہت قریب تھا۔
بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ آئن سٹائن جنگ کے خلاف تھا لیکن 1933ء میں امریکہ میں ہجرت کرنے اور امریکی شہری بننے کے بعد اس مشہور و معروف سائنسدان نے نسلی امتیاز کا بھی سامنا کیا۔ریوٹجرز یونیورسٹی پریس کی شائع کردہ کتاب ـ، ’’آئن سٹائن آن ریس اینڈ ریسزم‘‘ کے مصنفین کے مطابق آئن سٹائن امریکی علیحدگی پسندوں اور جرمنی میں یہودیوں کی حالت زار کے مابین پائے جانے والی مشابہت سے اچھی طرح واقف تھا۔آئن سٹائن نے نیو یارک کے ایک کاروباری شخص کوخط تحریر کیا جس میں اس نے دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں یہودی پناہ گزینوں کی مددکرنے پر اس شخص کا شکریہ ادا کیا۔
پرنسٹن جانے سے پہلے ، نیو جرسی میں آئن سٹائن کو نازیوں کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔لیکن جب اسے امریکہ میں گھر مل گیا تو اس نے دیکھا کہ یہاں بھی نسلی امتیاز برتا جاتا ہے،حتیٰ کہ گورے اور کالوں کے لئے سکول اور سینما گھر بھی الگ الگ ہیں ۔ اس وقت حالات ایسے تھے کہ پرنسٹن یونیورسٹی میں سیاہ فام طالب علموں کو داخلہ ہی نہیں دیا جاتا تھا۔ 1946ء میں آئن سٹا ئن کی شہری حقوق کیلئے کی گئی کاوشیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئیں،کیونکہ اسی سال امریکہ میں سیاہ فاموں کے خلاف تشدد کی ایک لہر چلی۔جنگ عظیم دوم کے افریقی امریکی سابق فوجیوں کو ملک بھر میں نشانہ بنایا گیا۔اس دوران آئن سٹائن نے ان کے حقوق کیلئے تقریریں کی، حکومت کو کئی خط تحریر کئے لیکن اس وقت کے میڈیا نے آئن سٹائن کی ان تمام کاوشوں کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا۔
نظریہ اضافیت کو پیش کئے سو سال کا عرصہ گزر گیا لیکن اس کے باوجود لوگ اس کے عوامی بہبود کے کاموں سے آگاہ نہیں ہیں۔آئن سٹائن کی ایسی ہی چند خدمات نذر قارئین ہیں۔ 1931ء میںنو افریقی امریکی لڑکوں پر الباما میں دو سفید امریکی لڑکیوں پر جنسی تشدد کرنے کا الزام لگایا گیا ،اس کیس کا فیصلہ حقائق کو سامنے رکھ کر کرنے کی بجائے نسلی امتیاز کے پیش نظر کیا گیا ،یہ کیس عوامی شہرت اختیار کر گیاجس سے عوام میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا اورنو اپریل1931ء میں ان نو لڑکوں کو سزائے موت کی سزاسنادی گئی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سزائے موت کے وقت تمام لڑکے پر سکون اور خاموش تھے اور ان کی نظروں کے سامنے ایک ایک کر کے سب کو بجلی کی کرسی پر بٹھا کر مارا گیا۔آئن سٹائن نے ان لڑکوں کے حق میں چلائی گئی میں تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس وقت تو ان لڑکوں کو سزا دے دی گئی لیکن 2013ء میں الباما کے قانون ساز ادارے نے اس کیس پر عوامی معافی مانگ لی تھی۔
میرین اینڈرسن ایک امریکی سنگر تھی،بیسویں صدی کے وسط میں اس نے امریکہ میں سیاہ فام فنکاروں کے ساتھ ہونے والے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔اسے پرنسٹن میں کرائے پر کمرہ دینے سے اس لئے انکا ر کردیا گیا کیونکہ وہ سیاہ فام تھی۔آئن سٹائن کو جب پتہ چلا تو اس نے میرین کو اپنے ہاں بطور مہمان رہنے کی خصوصی دعوت دی۔اس کے بعد میرین جب بھی پرنسٹن آتی تو آئن سٹائن کے گھر پر ہی قیام کرتی۔ 1946ء میں آئن سٹائن نے پنسلوانیا لنکن یونیورسٹی کی جانب سے آئن سٹائن کو اعزازی ڈگری دی گئی۔اس نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا :’’نسلی امتیاز درحقیقت گوروں کی ایک ذہنی بیماری ہے‘‘۔ آئن سٹائن کی پائول روبسن کے ساتھ گہری دوستی تھی،پائول روبسن ایک افریقی امریکی فنکار تھا،سیاہ فاموں کے شہری حقوق کے لئے کام کرنے کی پاداش پر اس کے پرفارم کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔1947ء میں امریکہ میں افریقیوں کے خلاف ہونے والی پر تشدد کاروائیوں کے خلاف ان دونوں نے مل کر کام کیا۔1952ء میں بلیک لسٹ ہونے کی وجہ سے روبسن کا کیریئر بالکل ختم ہو گیا۔آئن سٹائن نے روبسن کو پرنسٹن میںاپنے پاس بلا لیا۔
آئن سٹائن برسوں تک سیاہ فاموں کی بہبود کیلئے بنائے گئے ایک ادارے نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز کی پشت پناہی کرتا رہا۔اس ادراے کے بانی ڈبلیو ای بی بوئس کو 1951ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے غیر ملکی جاسوس قرار دے دیا گیا جبکہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران آئن سٹائن نے ڈبلیو ای بی بوئس کے حق میں گواہی دی۔آئن سٹائن کی گواہی کو نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ جج نے اس کیس کو ہی ڈراپ کر دیا۔ سن چھالیس میں پیجنٹ میگزین میں آئن سٹائن کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں اس نے لکھا:’’امریکیوں کے معاشرتی نظام کا ایک افسردہ پہلو یہ ہے کہ ان کے نزدیک مساوات اور انسانوں کی عزت صرف گورے لوگوں تک ہی محدود ہے۔بحیثیت ایک یہودی ،تعصب کا شکار ان لوگوں میں رہتے ہوئے شائد مجھے بھی نسلی امتیاز کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔لیکن ان گوروں کارویہ سیاہ فاموں کیلئے غیر انسانی ہے۔جیسے جیسے میں امریکیوں کے اس رویے کے بارے میں سوچتا ہوں ویسے ہی میرے دل میں ایک درد اٹھتا ہے،اور اس درد کا اظہار میں صرف ان الفاط سے ہی کر سکتا ہوں۔تمہارے ابائواجداد نے ان سیاہ فاموں کو گھروں سے باہر گھسیٹا ،اور انہیں غلامی کے اندھیروں میں دھکیلا۔ـ