تحریر : فرنود عالم
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سنو۔۔!!!
تمہیں اعتراض ہوتا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کو نوبل پرائز کیوں دیا گیا۔ عبدالستار ایدھی کو کیوں نہیں۔ ؟
اک ذرا توقف۔۔!!!
شیشے کی طرف منہ کرو۔ سوال کرو۔ عبدالستار ایدھی نے تمہیں کیا دیا۔ پھر تم نے عبدالستار ایدھی کو کیا دیا۔؟ کان رکھیئے۔ وقت کی آواز پہ کان رکھیئے۔ کچھ سنائی دیا۔؟ وہ کہہ رہا ہے
جب۔ !!!
تمہارے بچوں کا ذہنی توازن جواب دے گیا، تو ایدھی نے انہیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔
جب۔!!!
تمہارے ناجائز کرتوتوں سے تمہاری جائز اولاد نے جنم لیا، تو تم نے ا سے ناجائز کہہ کر کچرا کونڈیوں میں پھینک دیا۔ ٹٹھرتی ہوئی صبحوں کے حوالے کر کے چل دیئے۔ وہ مگر انسان تھے۔ اس کی آدمیت کو اگر امان ملی تو کہاں ملی۔ ؟ ایدھی کی پناہوں میں۔
پھر۔!!!
تمہاری ماؤں نے تمہاری پوٹلیاں دھوئیں۔ چھاتیاں لٹکا دیں۔ کمر دوہری کردیں۔ آنکھیں پتھر کردیں۔ ہاتھ لکڑی کر دیئے۔ جوانی غارت کر دی۔ گال پگھلا دیئے۔ حسن لٹا دیا۔ رات جاگتے میں گزری۔ دن انتظار میں کاٹا۔ عمر کا ہر دوسرا لمحہ اندیشوں اور وسوسوں کی سولی پہ لٹک گیا۔ بڑھاپے نے دستک دی۔ دمے کا عارضہ اسے لاحق ہوگیا۔ شوگر کو وہ خود لاحق ہوگئی۔ گلہ ساتھ چھوڑ گیا۔ گھٹنے جواب دے گئے۔ ہائی ڈوز دواوں کا آ سرا۔ مستقل دعاؤں کا سہارا۔ اب بے تکے سوال۔ مسلسل کھانسی۔ بات بات پہ غصہ۔ تم سے برداشت نہ ہوئے۔ دھتکار دیا۔ چلتا کر دیا۔ کر دیا نا چلتا۔؟ اب بے آسرا ہوگئی۔ اس کی عصمت کو پھر چادر اور چار دیواری میسر آئی تو کہاں سے آئی۔؟ ایدھی کے پاس سے۔
پھر۔۔!!!
تمہارے عزیزوں کی وہ سڑاندھی لاشیں، جس کے قریب تم نہ جا سکے۔ جس کو دیکھ کر جی متلایا۔ ابکائیاں آئیں۔ ہول اٹھے۔ تم کفنا بھی نہ سکے۔ تم دفنا بھی نہ سکے۔ ان لاشوں کا کندھا ملا تو کس کا ملا۔؟ ایدھی کا۔
مگر تم نے کیا دیا۔؟
ایک الزام۔ : کہ وہ کفن چور ہے اور مُردوں کے گردے بیچتا ہے۔
ایک فتوی۔: کہ وہ قادیانی ہے اس کو فنڈ دینا جائز نہیں ہے۔
ایک دکھ ۔ : کہ اس کو اس پیرانہ سالی میں بیس منٹ تک گن پوائنٹ پہ دیوار کی طرف ہاتھ اٹھا کر کھڑے رکھا، اور دفتر میں موجود تمام لاکرز خالی کر کے چل دیئے۔
اور سوال کیا ہے۔؟؟؟
سوال یہ کہ عالمی دنیا نے ایدھی کو نوبل پرائز کیوں نہیں دیا۔ یہ کہتے ہوئے ہمیں پانچ انگلیوں اور چار حرف کا خیال نہیں آتا۔ ؟
پھر کل کی بات ہے۔۔!!!
آسمان سر پہ اٹھالیا۔ کیا ہوا۔؟ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ٹھیک ہے، یہ کوئی نیا افتاد ٹوٹ پڑا ہوگا۔ نئی قیامت گری ہوگی۔ کیونکہ چھ سال کی بچی کو ہوس کی بھینٹ چڑھانے کا کارنامہ تو شاید کسی اور نے انجام دیا تھا۔ اس کا حساب تو شاید تم برابر کر چکے ہو اس لیئے بچوں کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔ درست، تمہاری بات بالکل درست۔
مگر۔۔!!!!
ایک بات تو بتایئے۔ تم ہی روتے ہو۔ تم ہی کوستے ہو۔ تمہارے ہاتھ ہیں۔ تمہارے ہی سینے ہیں۔ تمہارا دل اور تمہارا درد۔ روئے تم ہی تھے، مگر کل پاکستان کی جس جامعہ نے اپنا سینہ ایک حسینہ کے قدموں تلے پامال ہونے کو رکھا، وہ جامعہ کیا مریخ پہ واقع ہے۔؟
اس جامعہ میں پڑھنے والے انسان کیا ایتھوپیا کے باشندے ہیں۔
کیا وہاں استاد کے منصب پہ تحریک طالبان بیٹھی ہے؟
کیا وہاں کی فیکلٹیز میں لیاری گینگ وار نے منشیات کے اڈے کھولے ہوئے ہیں ؟
کیا وہاں علم نہیں، افیم کے انٹے بانٹے جاتے ہیں۔؟
تھے کون۔؟ ہیں کون۔؟ تم ہی تھے نا۔؟ تم ہی ہو نا۔؟ کیا اب انہیں میری بات سمجھ آئی ، جن سے میں نے انبکس میں کہا تھا
’’قصور پہ مت لکھوایئے مجھ سے۔ یہ بہت چھوٹا سا سانحہ ہے۔‘‘۔
کیوں کہا۔؟
کیونکہ بیس کروڑ انسانوں نے مل کر ڈھائی سو (جوکہ غلط فیگرہے) بچوں کا ریپ کیا۔ تب شاید کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ مگر کل ایک دانشکدے سے پیور ایجوکیٹڈ ہستیوں نے واضح اعلان کیا ہے
’’ہاں ہم ریپ کرتے ہیں۔ پھر ہم ہی روتے ہیں۔ ہاں یہ ریپ بھی ہم نے کیا۔ پھر ہم ہی روئے تھے۔ آئیندہ بھی ریپ ہم ہی کریں گے۔ پھر ہم ہی روئیں گے۔ ہم گینگ ریپ کرتے رہیں گے ، کوئی کچھ اکھاڑ سکتا ہے تو اکھاڑ لے‘‘۔۔
تمہیں قصور شہر کی فکر ہے۔ مجھے فکر ہے قصور وار کی۔ جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں۔۔!!