اسلام آباد میں انٹرا کشمیر جرنلسٹ فورم ، اصل کہانی کیا ہے بھائی ؟؟

indi pakistan

مہتاب عزیز

مہتاب عزیز
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج کشمیر کے ابطالِ حریت ایک بار پھر آزادی کی تڑپ میں آگ اور خون کے دریا میں اُترے کھڑے ہیں۔ وادی گُل پوش کی بہاروں کو نکھارنے کے لئے اپنا لہو نچھاور کر رہے ہیں۔
 
دوسری جانب کچھ گدھ اور بچھو نما مردہ خور درندوں جیسے لوگ بھی ہیں۔ جو اس تاک میں ہیں کہ کسی طرح کشمیر کے حالات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ خواہ شہیدوں کے خون کی قیمت لگائی جائے، اُن کے جسد خاکی کا سودا کیا جائے یا پھر کفن چرا کر بیچے جائیں۔
 
الغرض جس طرح بن پڑے چند ٹکے کما لئے جائیں۔ کشمیر کے نام پر گزشتہ روز ایک ڈرامہ وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں رچایا گیا۔ جسے کسی جگہ "انٹرا کشمیر جرنلسٹس ورکشاپ” اور کہیں "انٹرا کشمیر جرنلسٹس کانفرنس”کا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس کے لئے رقم ایک غیر ملکی ادارے نے مہیا کی۔ جبکہ اس کا انعقاد غیر ملکی امداد سے چلنے والی 2 این جی اوز نے مشترکہ طور پر کیا۔ بظاہر کہا گیا کہ ورکشاپ میں کنٹرول لائن کے آر پار کے صحافی شریک تھے۔
 
لیکن عملاْ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے 12 افراد میں ایک دو کے علاوہ تمام ہی لوگ غیر معروف تھے۔ جن کے بارے میں کسی کو خبر نہیں کہ آیا وہ واقعی صحافی تھے یا کسی خفیہ ایجنسی کے اہلکار۔ دوسری جانب آزاد کشمیر سے شرکت کرنے والے صحافیوں نے مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ اُنہیں پروگرام کا انعقاد کرنی والی این جی او کے ایک صاحب نے ذاتی دوست ہونے کی وجہ سے مدعو کیا تھا۔
 
بات یہاں تک ہی رہتی تو کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ حالات کے اس نازک موڑ پر مقبوضہ کشمیر کے ان غیر معروف افراد اور ذاتی دوستی کی بنیاد پر جمع کیے گئے افراد پر مبنی ایک گروپ تشکیل دیا گیا۔ جسے انٹرا کشمیر جرنلسٹ گروپ کا نام دیا گیا ہے۔
 
اس نام نہاد ورکشاپ کی جانب سے ایک 12 نکاتی لائحہ عمل بھی جاری کیا گیا۔ جس میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں زندگی کی صورتحال پر دستاویزی فلموں کی تیاری، خبروں کے مواد کا تبادلہ، اطراف پر مشترکہ سوشل میڈیا گروپس تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا ۔ غیر معروف اور ذاتی دوستوں پر مشتمل یہ ورکنگ گروپ اپنی دستاویزی فلموں اور خبروں سے یہ تاثر دینا شروع کر دے کہ پاکستانی کشمیر میں بھی مقبوضہ کشمیر جیسا ظلم ہو رہا ہے ۔
 
اگر واقعی یہ لوگ سنجیدہ تھے اور کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے تھے تو انہوں نے اپنے پروگرام کو اوپن کیوں نہیں کیا ؟
آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو شرکت کی عام دعوت نہیں دی؟
ذاتی دوستوں کے بجائے کشمیری صحافیوں کی کسی نمائیندہ تنظیم کو شرکاء کے انتخاب کے لئے کیوں نہیں کہا؟؟
 
پاکستان اور آزاد کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ غیر ملکی پیسے سے چلنے والی این جی اوز پاکستان اور کشمیر کاز سے کتنی مخلص ہیں۔ البتہ اس خاص پروگرام کے لئے ایک مغربی ملک کے ادارے نے جو پیسہ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے وہ ابھی تک ایک راز ہے۔ جسے اس کانفرنس یا ورکشاپ کے منتظمین نے راز رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
 
صحافیوں کی اس دو روزہ کانفرنس کے اندر ٹی وی کیمرے کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ صرف ایک موقع پر جب ایک سیاسی لیڈر خطاب کرنے آئے تو اُن کے اصرار پر کمیروں کو اندر آنے کی اجازت دی گئی۔
 
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب این جی اوز غیر ملکی سرمائے سے ایک کھیل کھیل رہی ہیں تو ملکی سلامتی سے متعلقہ درجن بھر ادارے کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ وزیر داخلہ جو این جی اوز کے بارے میں اپنی حساسیت کے نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے کیوں کر چھپ سادھ رکھی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے