خ
یہ غالباً 1983ء کی بات ہے۔ ملتان کے ضلعی ناظم کا الیکشن تھا۔ اس وقت اسے چیئرمین ضلع کونسل کہا جاتا تھا۔ الیکشن میں دو بڑے مضبوط امیدوار ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ ایک طرف سید فخر امام چیئرمین اور ان کے ساتھ وائس چیئرمین کیلئے شجاعباد کے نواب لیاقت علی خان امیدوار تھے‘ اور دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی چیئرمین اور ظفر ہراج وائس چیئرمین کے امیدوار تھے۔ مجھے بہت اچھی طرح تو یاد نہیں لیکن تھوڑا بہت ضرور یاد ہے کہ ایک طرف ستائیس اور دوسری طرف انتیس ووٹ تھے۔ ممکن ہے یہ تعداد اس سے تھوڑا بہت فرق ہو مگر یہ بات طے ہے کہ ہر دو اطراف کے ووٹوں کی تعداد میں دو کا فرق تھا۔ ستائیس اور انتیس، چھبیس اور اٹھائیس یا اٹھائیس اور تیس۔ قصہ مختصر ایک طرف دو ووٹ زیادہ تھے اور دوسری طرف دو ووٹ کم تھے۔ زیادہ ووٹ والی سائیڈ سید فخر امام کی تھی۔
جس روز الیکشن تھا اس دن دونوں امیدوار اپنے اپنے ووٹوں کے ہمراہ ضلع کونسل ہال میں پہنچے۔ تب امیدوار اپنے حامی ووٹوں کے ہمراہ ویسے ہی جلوس کی شکل میں آتے تھے جیسے یوتھ موومنٹ سٹیڈیم میں کُشتی لڑنے والے پہلوان اپنے حواریوں اور چھوٹے جوڑ والے پہلوانوں کے ہمراہ دھول تاشے بجاتے ہوئے آتے تھے۔ خیر الیکشن والے دن سید فخر امام اپنے انتیس ووٹر ممبران ضلع کونسل سمیت اور سید یوسف رضا گیلانی اپنے ستائیس ووٹر ممبران ضلع کونسل مع اپنے اپنے وائس چیئرمین نہایت طمطراق سے ضلع کونسل ہال پہنچے۔ وہاں ایک اخباری نمائندے نے سید یوسف رضا گیلانی سے پوچھا کہ ان کے ساتھ تو ستائیس ارکان ضلع کونسل ہیں جبکہ سید فخر امام کے ساتھ انتیس ارکان کھڑے ہیں۔ آپ دو ووٹوں سے ہار رہے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی بڑے سکون سے مسکرا کر اور دوسری طرف کھڑے انتیس ارکان ضلع کونسل کی طرف اشارہ کرکے بولے، ان انتیس ممبران میں سے دو ہمارے ہیں۔ ایک قہقہہ لگا اور بات ختم ہو گئی۔
تھوڑی دیر بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہو گیا اور بھلا ووٹرتھے ہی کتنے؟ ساٹھ کے لگ بھگ! تھوڑی ہی دیر میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا اور گنتی شروع ہو گئی۔ آٹھ دس منٹ میں یہ کام بھی مکمل ہو گیا۔ وہی ہوا جس کا دعویٰ سید یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا۔ جو امیدوار اپنے ساتھ انتیس ممبران کو لے کر گیا تھا اس کے ستائیس ووٹ نکلے اور جو امیدوار اپنے ساتھ ستائیس ارکان کو لے کر گیا تھا‘ اس کے بیلٹ بکس میں سے انتیس ووٹ نکلے۔ یہ بات واضح کر دوں کہ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوا تھا جبکہ حامی ارکان کھلے عام ساتھ چل رہے تھے۔ قانون امیدواروں کو اپنے اپنے حامیوں کو سر عام ساتھ لے کر چلنے بارے کوئی قدغن نہیں لگاتا تھا۔ سو حامی کھلے عام ساتھ آئے اور خفیہ رائے شماری میں ڈنڈی مار گئے۔ سید یوسف رضا گیلانی دو ووٹوں کی اکثریت سے چیئرمین ضلع کونسل ملتان بن گئے۔
اب بڑی کھلبلی مچ گئی کہ دو ووٹر کون سے تھے؟ اس زمانے میں موبائل فون اور ان کے اندر لگے ہوئے کیمروں کی سہولت بھی نہ تھی کہ ووٹروں کو کہا جاتا کہ مہر لگاتے وقت فوٹو کھینچ لیں۔ بس لے دے کر ان کو پابند کرنے کیلئے قرآن مجید کا حلف تھا سو وہی اٹھوایا جاتا تھا۔ چنانچہ یہی کیا گیا۔ سید فخر امام گروپ اپنے انتیس ارکان ضلع کونسل کو لے کر ضلع کونسل ہال کی مسجد میں گیا اور سب سے قرآن مجید پر وائس چیئرمین نواب لیاقت علی خان کو ووٹ دینے کا حلف لیا۔ مزید برآں سب ارکان کو قرآن مجید کے نیچے سے گزار کر ووٹ ہال میں بھیجا گیا۔ جب نتیجہ آیا تو وہ بھی حسب سابق والا تھا۔ یعنی نواب لیاقت کے حلف یافتہ انتیس ووٹروں میں سے دو پھر کھسک گئے تھے اور نواب لیاقت کے ستائیس ووٹ نکلے اور ظفر ہراج بھی انتیس ووٹ لے کر وائس چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہو گیا۔
مجھے یہ چونتیس سال پرانا واقعہ دراصل سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے نتائج دیکھ کر یاد آیا۔ اس دوران بھی ایک دو بار یہ واقعہ یاد آیا ہے کہ جب تک ایسے نتائج آتے رہیں گے یہ واقعہ یاد آتا رہے گا۔
آصف مجید نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کے دعوے کی بھی وہی حیثیت ہے جو مولانا فضل الرحمن کے اس دعوے کی کہ وہ اصولوں کی سیاست کرتے ہیں۔ ہم دوپہر آصف مجید کے ساتھ تھے اور ٹی وی چل رہا تھا۔ ایک ٹی وی چینل پی ایم ایل این اور اتحادیوں کے باون ووٹ اور حزبِ اختلاف کے اتحاد کے اکاون ووٹوں کی تفصیل دکھا رہا تھا‘ جبکہ ایک اور چینل اس ترتیب کو الٹا دکھا رہا تھا۔ لیکن دونوں اطراف سے جو حساب کتاب دکھایا جا رہا تھا اس میں ہر دو فریقین میں ایک ووٹ کا فرق ظاہر کیا جا رہا تھا۔ سارے بزرجمہر اور تجزیہ نگار بھی زیادہ سے زیادہ دو ووٹوں کے فرق سے کسی بھی فریق کی جیت کا امکان ظاہر کر رہے تھے۔ آصف مجید بھی بار بار وہی چینل لگا رہا تھا جس پر مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے باون ووٹ دکھائے جا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ اگر یہ چینل بھی صرف ایک ووٹ کی برتری دکھا رہا ہے تو یہ سمجھو کہ ن لیگ اور اتحادی اس الیکشن میں چیئرمین سینیٹ کی سیٹ پر ہار رہے ہیں۔ آصف مجید نے سوال کیا کہ وہ کیسے؟ سارے ارکان سینیٹ کی تفصیل سامنے ہے۔ مسلم لیگ ن ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی حکومتی اتحاد کا حصہ تھیں۔ دوسری طرف پی پی پی، پی ٹی آئی، بلوچستان کے آزاد ارکان، فاٹا اور ایم کیو ایم حزبِ اختلاف کے اتحاد میں تھیں۔ بی این پی مینگل کو ہر دو چینل اپنی اپنی مرضی کے اتحاد میں ڈال کر ایک ووٹ کا فرق دکھا رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ پورے بلوچستان سے منتخب تئیس سینیٹرز میں سے صرف آزاد گروپ کے چھ ارکان کو حزبِ اختلاف کے اتحاد میں دکھایا جا رہا ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ صادق سنجرانی بلوچستان کے بقیہ سینیٹرز میں سے بلوچ فیکٹر کی بنیاد پر کم از کم تین چار ووٹ سمیٹنے میں کامیاب ہو جائے گا‘ اور وہی ہوا۔
حاصل بزنجو اینڈ کمپنی اب جمہوریت کی بربادی کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے الیکشن سدا سے ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ جیتنے والا اسے آئندہ بھی جمہوریت کی فتح اور ہارنے والا جمہوریت پر دھبہ یا پارلیمنٹ کی بربادی اور بالا دست طبقے کی فتح قرار دیتا رہے گا۔ اگر حکومتی اتحاد جیت جاتا تو یہ الیکشن صاف شفاف بھی ہوتے اور اس کا نتیجہ ملک و قوم اور جمہوریت کے لئے خوش آئند بھی نکلتا۔ ہر دو صورتوں میں یہی بیلٹ بکس ہونا تھا اور یہی ایک سو تین ووٹ۔ انہی ایک سو تین ووٹوں میں سے حکومتی اتحاد کو زیادہ ووٹ مل جاتے تو جمہوریت جیت جاتی اور انہی ایک سو تین ووٹوں میں سے ان کے ووٹ کم نکلے ہیں تو جمہوریت ہار گئی ہے۔ یعنی مسئلہ ان ووٹوں کا نہیں محض کم یا زیادہ ہونے کا ہے اور جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ ووٹ نہیں بلکہ مرضی کے ووٹ کریں گے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ کم از کم اس عاجز نے جمہوریت کی یہ تعریف پہلی بار سنی ہے۔
سینیٹ کا الیکشن پاکستان کا پھسپھسا ترین الیکشن ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ جوش و خروش تو ہائیکورٹ بار کے ملتان بینچ کے الیکشن میں ہوتا تھا۔ اسے غیر معمولی اہمیت صرف مستقبل میں من مرضی کی آئینی ترامیم کی خواہش نے بخشی۔ لیکن اب سب کچھ دھڑام سے نیچے آن گرا ہے تو واویلا تو مچنا ہی تھا۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اب مسلم لیگ ن والے ٹویٹ پر ٹویٹ کر رہے ہیں کہ تم (جیتنے والا گروپ) ہار گئے ہو۔ عجب معاملہ ہے۔ خود ہار کر بھی جیت جاتے ہیں اور جیت کر بھی… جبکہ دوسرے ہار کر تو خیر ہارتے ہی ہیں جیت کر بھی ہار جاتے ہیں۔
”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘