وسعت اللہ خان
خبر ہو نہ ہو اخبار ضرور چھپتا ہے۔ ٹی وی چینل ضرور چلتا ہے۔ خالی دن ہو تو پھر اس طرح کی ویہلی خبریں زینت بنتی ہیں۔
ایک سر کٹا مرغا کیسے زندہ رہا ( واضح رہے کہ یہ ’’تازہ ترین بریکنگ نیوز‘‘ ستر برس پرانی ہے جب امریکی ریاست کولوریڈو میں ایک کسان کے مرغی خانے میں ایک مرغا سر اڑنے کے ڈیڑھ برس بعد تک زندہ رہا)۔
جس رپورٹر نے بھی اپنے تئیں سر کٹے مرغے کی نیوز بریک کی کاش وہ زندگی میں کبھی لکی ایرانی سرکس یا کوئی بھی دیسی سرکس یا پاک و ہند کے دیہی ماحول میں کوئی روایتی میلہ یا عرس دیکھ لیتا۔ جہاں بڑے سے سر کسی ٹینٹ کے باہر لگے چھوٹے سے تنبو میں کوئی بھی بچہ چار آنے کا ٹکٹ لے کر سر کٹا انسان اور زندہ جل پری دیکھ سکتا ہے اور ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے۔
حتیٰ کہ بی بی سی کے پاس بھی خبروں کا اس قدر قحط رہا کہ یہ خبر بھی نمایاں ہو گئی کہ جرمنی کے ایک جنگل میں ولادی میر لینن کا دبا ہوا سر چوبیس برس بعد زمین سے نکال لیا گیا۔ (دو روز قبل یہ خبر ایسے اہتمام سے شایع ہوئی گویا ایک اور ڈانسنگ گرل موہنجو دڑو کے کھنڈرات سے دریافت ہو گئی ہو یا کسی نئے فرعون کی ممی ہاتھ آ گئی)۔
لیکن مجھے ذاتی طور پر ’’ ناخبری‘‘ والے ان دنوں میں شایع اور نشر ہونے والی یہ خبر زیادہ دلچسپ لگی کہ جنوبی افریقہ میں انسانی ارتقا کی گتھی سلجھانے والے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک گہرے غار میں بنے ہوئے خفیہ چیمبر تک رسائی حاصل کر کے وہاں سے پندرہ قیمتی ڈھانچے حاصل کیے ہیں۔ ٹیم کے سربراہ پروفیسر لی برگر کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچے مکمل انسان نہیں بلکہ نیم انسان تھے اور ان کا تعلق دو ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق اور جدید انسان کے درمیان کی نالیدی نسل سے تھا۔ ہاتھ پاؤں انسانوں جیسے مگر انگلیاں بن مانس جیسی۔ ان کی کھوپڑی جدید انسانوں جیسی مگر اس کا حجم چھوٹا تھا لہذا دماغ بھی چھوٹا تھا۔
پروفیسر صاحب کے بقول جب ہم نے یہ ڈھانچے دریافت کیے تو خیال تھا کہ یہ بن مانسوں یا گوریلوں کی کوئی معدوم نسل ہے۔ لیکن غار کے اندر ایک چیمبر بنانا اور پھر اس میں ایک خاص ترتیب سے تدفین کرنا کسی بن مانس یا گوریلے کے بس کی بات نہیں۔ پروفیسر لی برگر کا اندازہ ہے کہ یہ نیم انسان مخلوق تین ملین برس پہلے تک اس کرہِ ارض پر موجود تھی۔
حالانکہ ہم پروفیسر لی برگر کی طرح ماہرِ بشریات نہیں پھر بھی یہ تحقیق پڑھ کے یوں لگا گویا پروفیسر صاحب کی کھوپڑی بھی غالباً دریافت شدہ ڈھانچوں کی کھوپڑی جیسی ہے۔ ورنہ وہ کاہے کو کہتے کہ یہ انسان نما مخلوق تین ملین برس پہلے تک موجود تھی۔ ہماری اپنی تحقیق یہ ہے کہ یہ انسان نما مخلوق تین ملین سال بعد بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ ماشااللہ پھل پھول رہی ہے۔
پروفیسر لی کو تو یہ تک نہیں معلوم کہ چند عشرے پہلے تک ہمارے گجرات میں کھوپڑیاں چھوٹی کرنے کا کام باقاعدگی سے ہوتا تھا اور پھر اس چھوٹی کھوپڑی والی نیم انسانی مخلوق کو دولے شاہ کے چوہے قرار دے کر بھک منگوں کو دان کر دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ کھوپڑی ساز گھریلو فن یوں معدوم ہوتا چلا گیا کہ یہ کام ریاستوں نے نہ صرف سنبھال لیا بلکہ جدت طرازی سے کام لیتے ہوئے رعایا کے سروں پر طرح طرح کے نظریاتی، نسلی اور قومی فولادی خود فٹ کر کے کھوپڑیاں چھوٹی کرنی شروع کر دیں اور یہ نسل اس کثرت سے تیار ہوئی کہ آج یہ کہنا مشکل ہے کہ اس دولے شاہی ہجوم میں نارمل سائز کی کھوپڑیاں کتنی باقی بچی ہیں۔
پروفیسر لی برگر کی دریافت سے بہت عرصے پہلے یہ فقیر لندن میں جگہ جگہ ایسے پوسٹرز دیکھ چکا ہے جن میں بس دو دماغ دکھائے گئے تھے۔ ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا۔ بڑے پر لکھا تھا انسان پرست اور چھوٹے پر لکھا تھا نسل پرست۔
تین ملین سال پہلے اس کرہِ ارض پر پائی جانے والی چھوٹی کھوپڑی کی جس نیم انسانی نسل کی معدومی کا دعویٰ پروفیسر لی برگر نے اطمینان سے کر دیا اس نسل کو شائد ہلکا سا ادراک ضرور ہو گا کہ اس کی کھوپڑی اور اس میں بسنے والے دماغ کی حدود و قیود کیا ہیں۔ شائد اسی لیے پروفیسر برگر کی ٹیم کو جو پندرہ ڈھانچے ملے ان سب کی موت کا سبب طبعی لگتا ہے۔ غالباً اس نسل کی چھوٹی کھوپڑیاں میں اتنی گنجائش ہی نہیں تھی کہ بے وجہ قتل، ہوس کے ہاتھوں جنگ و جدل، اور ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور غلام بنانے کی خواہش جیسے انسانی اوصاف ان میں سما سکیں۔
لیکن جب ارتقائی عمل کے سبب یہی چھوٹے دماغ بڑی کھوپڑیوں میں سمائے اور پھر چھوٹے دماغوں سے مسلح ان بڑی کھوپڑیوں نے جو جو گل کھلائے انھیں دیکھ کر ہی شائد جدید انسان کے چچیرے بن مانسوں اور ممیرے گوریلوں نے اپنا ارتقائی سفر ملتوی کر دیا۔ ورنہ ان بن مانسوں اور گوریلوں میں بھی کوئی نہ کوئی دیگر بندروں کو غلام بنانے کے لیے ’’وائٹ مین برڈن‘‘ کی تھیوری جیسی کوئی ’’چیمپینزی برڈن تھیوری‘‘ ایجاد کر لیتا۔ گوریلوں میں بھی کوئی چنگیز، ہلاکو، ہٹلر، حجاج، تیمور، صدام، بشار، ابوبکر البغدادی، پال پوٹ، بش، مودی وغیرہ جنم لیتا اور اپنے ہم نسلوں کے دماغ ٹھکانے لگا دیتا۔
ایک تو مجھے یہ بات پلے نہیں پڑتی کہ علمِ بشریات سے منسلک سائنسداں ہمیشہ اسی تاک میں کیوں لگے رہتے ہیں کہ انسان کے ارتقا کی کڑیاں جوڑ لیں۔ فرض کریں ایک دن انسانی ارتقا کی تھیوری مکمل ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہو گا۔ جتنی توانائی انسان کے جسمانی ارتقائی سفر نامے کو مکمل کرنے پر لگائی جا رہی ہے اس سے آدھی توجہ میں یہ بھی تو معلوم ہو سکتا ہے کہ جس حیوان کو آج کل جدید انسان کہا جاتا ہے اس جدید انسان کے اندر کتنے قدیم جانور پوشیدہ ہیں اور وہ کن کن اسباب کے سبب کن کن مواقع پر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں یا پھر روپوش رہتے ہیں اور ایسا کیا کیا جائے کہ انسانوں کے اندر بھی بس ایک انسان ہی رہے جیسا کہ بن مانس کے اندر بن مانس اور لومڑی کے اندر بس لومڑی چھپی رہتی ہے۔
کبھی اس پے بھی تو کوئی غور فرمائے کہ جنھیں اچھائی اور برائی میں تمیز کی طاقت ودیعت ہوئی انھوں نے اس طاقت کو کتنے موثر اور مثبت انداز میں اپنے جیسوں کے حق میں استعمال کیا اور جن جانداروں کو بظاہر اچھے برے کی تمیز نہیں دی گئی ان میں کتنے جاندار اپنے ہم نسلوں کے لیے عذاب بنے ہیں۔ اور پھر اس پر بھی غور فرمائیے گا کہ عقل زیادہ تباہ کن اور مفید ہے یا حیوانی جبلت؟
عجیب باتیں کر رہا ہوں نا میں؟ جس دن خبروں کا کال ہو۔ اس دن ایسی فضول باتیں ہی ذہن میں آتی ہیں۔ لہذا دھیان دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس