ضابطے کی خلاف ورزی شریعت کی خلاف ورزی نہیں

wedding

 

 

 

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان بے ضابطہ شادی کے بندھن کو غیر اسلامی اور شریعت کے متصادم تصور نہ کیا جائے۔

جسٹس شاہد ندیم نے خوشاب کی سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جو شادی بے ضابطہ ہو اسے غیر قانونی شادی تصور نہ کیا جائے۔

خیال رہے کہ خوشاب کی سیشن کورٹ نے ایک درخواست کو خارج کردیا تھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ایک شخص کے خلاف خاتون کو عدت کے دوران اغوا کرکے اس سے شادی کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا جائے۔

درخواست گزار محمد شیر نے دعویٰ کیا ہے کہ مجاہد اقبال نامی ایک شخص نے ان کی مطلقہ بیٹی کو اغوا کرنے کے بعد اس سے شادی کرلی، جو کہ اپنی عدت گزار رہی تھی۔

درخواست گزار نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ سیشن عدالت نے اقبال کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ان کی درخواست کو خارج کردیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی پٹینش کے مطابق خاتون کو یکم مئی 2011 کو اغوا کیا گیا جبکہ کہ اس کو اس کے پہلے شوہر محمد سرور نے 6 فروری 2011 کو طلاق دی تھی۔

خاتون نے اپنی عدت کی مدت کو مکمل کرنے سے پہلے ہی دوسری شادی کرلی۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدت کے دوران دوسری شادی نہیں کی جاسکتی اور ایسا کوئی بھی نکاح غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

ملزم اقبال کے وکیل نے اغوا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے بھی خاتون کو اغوا نہیں کیا اور اس نے اپنی مرضی سے عدت مکمل ہونے کے بعد دوسری شادی کی ہے۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ دوسری شادی کرنے والی خاتون بہتر جانتی ہے کہ حیض کے حوالے سے موجود حکم کے حوالے سے وہ دوسری شادی کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، کیونکہ کہ حیض کی 3 مختلف مدت مکمل ہونے سے عدت ختم ہوجاتی ہے۔

دونوں فریقین کا مؤقف سننے اور دستیاب ریکارڈ کے بعد یہ بات جسٹس شاہد ندیم کے مشاہدے میں آئی کہ اسلام اور قرآن و سنت کے مطابق عدت کے ایام کے مکمل ہونے کے لئے خاتون کو 3 بار حیض ہونا ہی کافی ہے اور مطلقہ خاتون ہی اس حوالے سے بہتر جانتی ہے۔

جج نے قرآن کی سورہ بقرہ کی آیات نمبر 228 کو اس حوالے سے کافی قرار دیا۔

جج کا کہنا تھا کہ اسلامی قوانین کے مطابق خاتون کا عدت مکمل کرنے سے پہلے دوسری شادی کرنا بے ضابطگی ہے تاہم غیر قانونی نہیں۔

جسٹس نے پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا کہ ’ایسی شادی جو کہ طلاق کے بعد حیض کے 3 مختلف مدت کے پورے ہونے پر کی جائے شریعت کے لحاظ سے درست ہے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے