تحریر : طارق حبیب
کراچی
اسلام آباد جی نائن مرکز میں ایک "فرشتہ دوست” سے ملاقات طے تھی…
.
وہ گاڑی میں تشریف لائے….کچھ دیر ملاقات رہی…واپسی کے لئے روانہ ہوئے توانکشاف ہو گاڑی کی چابی نہیں ہے….
.
کافی دیر تلاش کے بعد پتا چلا چابی گاڑی میں ہے….اور گاڑی لاکڈ…
.
کوششیں شروع ہوئی…میں دوسری جانب تھا کہ اچانک مجھے دوست کے الفاظ سنائی دئے….
.
گٹ لاسٹ ٹو یور پوائنٹ…
لہجہ سخت کرخت اور دھیما تھا….
.
میں نے بے اختیار دوست کی جانب دیکھا تو اس کے قریب میلے کپڑوں میں ایک شخص کھڑا تھا…
.
دوست کا جواب سن کر وہ شخص واپس چلا گیا اور قریب کھڑے ٹھیلے پر فروٹ بیچنے لگا…دوست کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ کوئی متوجہ تو نہیں….
.
دوست کے غصے میں ڈانٹنے کی وجہ اس وقت سمجھ آئی ….جب وہ شخص واپس جانے لگا….
.
اس نے واپسی سے قبل …بازو سیدھے کئے….پائوں جوڑے…اور سر کو ہلکا سا خم کرکے پلٹ گیا….
.
دوست کے منہ سے بے اختیار نکلا….
"اناڑی سالا…”
.
. ساتھ موجودتیسرے صحافی دوست نے بتایا کہ انھیں ایف سکس میں ایک فرشتہ دوست سگنل پر ڈراپ کرکے ڈائریکشن بتا رہے تھے ….اچانک ایک فقیر آیا اور انکے دوست سے مخاطب ہوا…اینی پرابلم سر….
.
صحافی دوست نے تبصرہ فرمایا کہ لو رینک افسران کو سیلوٹ مارنے کی اتنی عادت ڈال دی جاتی ہے کہ….
.
وہ جہاں جس حال, جس پوزیشن, جس کنڈیشن میں ہوں…افسر کے چہرے پر نظر پڑتے ہی …. سیلوٹ (خفیہ یا واضح) مارے بغیر نہیں رہتے…. بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ بیچارے افسر دیکھتے ہی …
"وہ سیلوٹ مارتے نہیں…ان سے وج جاتا ہے”