حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دس ذی الحجہ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بتا دیا
اللہ کے حکم کے سامنے اپنی مرضی نہیں چلے گی ، بھلے دل مانے یا نہ مانے
یہ چھری اسماعیل کی گردن پر نہیں پھری بلکہ اپنی محبت ، اپنی چاہت ، اپنی قربت ، اپنی مصلحت ، اپنی وفا ، اپنی جفا ،اپنی انا ، اپنی محنت ، اپنی ریاضت اور خود اپنے احساس کی دنیا پر پھیری گئی تھی ۔
خود مرنا آسان ہے ، اپنے نور نظر ، اپنے لخت جگر کو مرتے دیکھنا ، خود مر جانے کے برابر ہے لیکن ابراہیم نے تو اپنے ہاتھوں سے اسماعیل کی گردن پر چھری پھیری تھی ۔
یہ قرآن کی سورہ الصافات ہے ، ایک بوڑھا باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے ، اپنے نوجوان بیٹے کو طلب کرتا ہے ۔ وہ بیٹا جس کی پیاس اس کی ماں سے برداشت نہ ہو سکی اور وہ صفا و مروہ میں بیٹے کی پیاس بھجانے کے لیے تڑپتی رہی ، وہ بیٹا جس کی ایڑیوں کی رگڑ سے پہاڑ پر پانی کا وہ چشمہ جاری ہوا جو 5 ہزار برس سے جاری و ساری ہے ۔ اس بیٹے کو باپ نے بلایا ۔ گلے لگایا اور کہا کہ
یٰبُنَیَّ اِِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی
’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا راے ہے؟‘‘
آداب فرزندی میں گندھے ہوئے اسماعیل کا بدن کانپا نہیں ،
مقدس لبوں نے حرکت کی ،
ابراہیم کی ڈوبتی سماعتوں نے ایک بار سنا اور وجود ہل گیا
یٰاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ
بابا ،آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
بوڑھے باپ نے آنکھوں پر پٹی باندھی کہ کہیں بیٹے کو دیکھ کر اس کا ارادہ بدل نہ جائے
بیٹے کو اوندھے منہ لٹایا کیونکہ جس چہرے پر جدالانبیاٗ کے بوسوں کے نشان ثبت تھے ،اسے پر چھری کیسے چلاتا ؟
چھری ہاتھ میں اٹھائی ۔ آسمانوں پرفرشتوں کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔
اجرام فلکی میں ایک ہلچل مچی
اجسام انسانی کا خون رگوں میں رک پر سیاہ ہونے لگا
عرش الہیٰ پر وجود خداوندی نے ایک بار جوش مارا
ابراہیم کی سماعتوں نے ایک مانوس سی آواز سنی
وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّآِبْرٰھِیْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ o اِِنَّ ہٰذَا لَھُوَ الْبَلآؤُا الْمُبِیْنُ o
ابرہیم تم پر سلام ہو
تم اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔ تو نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا کیونکہ تیری ممکنات کی دنیا محدود ہے اور ہماری لیے ناممکنات کی دنیا کا وجود ہی نہیں ۔ تو آزمائش میں پورا اترا ، ہم جانتے تھے کہ تو پورا ہی اترے گا لیکن اہل زمین کے لیے اس آزمائش کی تعمیل و تکمیل کو منظم نقش بھی بنانا تھا ۔
وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ o
ہم نے اسماعیل کا فدیہ دیا ، ہم نے اس ذبح عظیم کا فدیہ دیا ۔ اسماعیل بچ گیا
ایک بار اقبال بھی تڑپا تھا ۔
صدق خلیلؑ بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں، بدر و حنین بھی ہے عشق
آج ابراہیم بھی زندہ ہے ، اسماعیل بھی زندہ ہے کیونکہ انہوں نے امر رب کی تعمیل و تکمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔
ثابت ہوا کہ خداوند متعال کے حکم پر چلنے میں ہی بقا کا راز مضمر ہے ۔ جو مر نہیں سکتا ، وہ جی بھی نہیں سکتا ۔
پس میرے دوستو
تمھیں بکرے ، گائے ، دنبے ، بیل، بچھڑے اور اونٹ مبارک ہوں
لیکن چھری پھیرتے ہوئے اپنی انا پر ضرور پھیرنا ۔
ورنہ اس چھری پھیرنے کا کوئی فائدہ نہیں
یہ قرآن حکیم کی سورہ حج ہے جس میں باری تعالیٰ کہتے ہیں کہ
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ
’’اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون، اسے تو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
یہ سورہ مائدہ ہے
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo
’’اور انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔
اس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔
اس نے جواب دیا: ’’اللہ تو متقیوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔
یعنی تیرے دُنبے کو اگر آسمانی آگ نے نہیں جلایا اور اللہ نے اسے قبول نہیں کیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے قتل کی دھمکی دے رہا ہے۔
اپنی اصطلاح کی فکر کر، تیرے اندر ہی کھوٹ ہے،
اللہ تو صرف متقی لوگوں کی قربانی ہی قبول کرتا ہے۔
اور سنئیے
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ o
میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رُخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
بلاشبہہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔ خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے۔
یہ قربانی کی تاریخ ہے جو قرآن بتا تا ہے ۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ کیسے ہم اپنی نیت کی اصلاح کریں اور اس دن کو مقدس ترین بنا دیں ۔
ایسا دن کو جو اللہ کو مطلوب ہے ،
جو مومن کا مقصود ہے ۔