گذشتہ چند برسوں کے دوران خلیجی عرب ریاستوں میں غیرملکی کارکنوں کے ساتھ روا رکھا جانے والے سلوک کی وجہ سے تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ایسے الزامات عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور انسانی حقوق کے علمبردار کارکنان کی جانب سے عاید کیے جاتے تھے مگر برسوں سے انھیں نظرانداز کیا جا رہا تھا۔
تاہم گذشتہ چند برسوں سے خلیجی ریاستیں ورکروں کی ناگفتہ بہ حالات کار کی بہتری کے لیے اقدامات کررہی ہیں۔اس ضمن میں بعض اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود مسئلہ جوں کا توں موجود ہے کیونکہ غیرملکی ورکر ،خواہ وہ مزدور ہوں یا سفید پوش دفتری کارکنان، مکمل طور پراسپانسروں (کفیلوں) کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
میں نے گذشتہ برسوں کے دوران اس موضوع پر متعدد مضامین لکھے ہیں اور ان میں اس تمام صورت حال کو واضح کیا ہے۔حتیٰ کہ میں نے متعلقہ حکام کو بھی لکھا ہے اور ان کی توجہ اس مسئلےکی جانب مبذول کرائی ہے لیکن اس کا کچھ مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
نئے سعودی وزیرمحنت نے صرف میرے آخری خط کا فوری جواب دیا تھا اور اس پر کارروائی کی تھی۔اس پر میں ان کا اور ان کے عملے کا ممنوں ہوں۔انھوں نے انسانی بنیاد پر ایک ڈاکٹر کے کیس کا جائزہ لیا ہے۔یہ ڈاکٹر افسرشاہی کی غلطی کی وجہ سے گذشتہ انیس ماہ سے سفر نہیں کرسکا تھا۔
مسئلہ قوانین میں نہیں ہے بلکہ ان کے نفاذ میں ہے۔ورکروں (ان میں کی اکثریت غیرعرب ہے) کے مسائل کو ہمدردری سے سنا ہی نہیں جاتا ہے اور بہت سے کیسوں میں تو انھیں باقاعدہ قانون کی مدد سے نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ ان کے کفیل انھیں بھگوڑے ظاہر کرکے ان کے خلاف ”حروب” کے کیس درج کرادیتے ہیں۔
سعودی عرب میں مزدوروں سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی جارہی ہیں۔اس کے علاوہ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی کفالت کے قوانین میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا ہے۔یو اے ای میں نئی مزدوراصلاحات متعارف کرائی جارہی ہیں۔ان کا مقصد لاکھوں تارکین وطن ورکروں کے ساتھ ملازمت کے سمجھوتے کو نظرانداز کرنے والوں پر کڑی نظر رکھنا ہے۔ان اصلاحات پر یکم جنوری 2016ء سے عمل درآمد کا آغاز ہوگا۔
نئی اصلاحات میں ملازمت کی شرائط اور ملازمت کے معاہدوں میں شفافیت لانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ان میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ملازمت کا معاہدہ کیسے ختم ہوسکتا ہے اور ورکروں کے لیے ایک جگہ سے چھوڑ کر دوسری جگہ پر ملازمت کےلیے جانے کا عمل آسان بنایا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیرمحنت صقرغباش نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک میں اصلاحات کا عمل شروع کرنے میں پہل کی ہے۔ان کی اصلاحات کے نتیجے میں غیرملکی ورکروں کا بہترانداز میں تحفظ ہوسکے گا۔اب غیرملکی ورکر اپنے آجروں کو تبدیل کرسکتے ہیں اور وہ متبادل معاہدے سے بھی بچ سکتے ہیں۔پہلے اس متبادل معاہدے کے تحت امارات میں آمد پر انھیں ایک اور دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔
وزیرمحنت صقر غباش نے ان اصلاحات پر عمل درآمد کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ”یہ قواعد وضوابط لیبر مارکیٹ کو سمجھوتے کے تمام فریقوں کے درمیان مضبوط اور متوازن تعلقات کی بنیاد پر ایک نئے مرحلے میں لے جائیں گے۔معاہدے کی شفافیت کی وجہ سے تمام فریقوں کے حقوق کی ضمانت میسر آسکے گی۔
قطر میں بھی کابینہ نے کفالہ کے نظام میں تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے۔اس سے ان اصلاحات کو قانون میں سمونے کا عمل بھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے گا۔تاہم ان نئے قواعد وضوابط کی امیر قطر نے ابھی منظوری دینا ہے۔اس لیے 2016ء کے اختتام سے قبل ان پر عمل درآمد کا امکان نظر نہیں آتا ہے۔
خلیجی عرب ریاستوں اور خاص طور پر سعودی عرب میں میں غیرملکی کارکنوں کی بڑی تعداد میں آمد سے ایک بڑی ”ویزا مارکیٹ” بھی معرض وجود میں آگئی ہے اور بہت سے شہری اور ریکروٹمنٹ ایجنسیاں بیرون ملک لاکھوں ،کروڑوں ریال کما رہی ہیں۔
آج بھی سعودی عرب میں وزارت محنت نے ”ویزے کے سنگ دل بیوپاریوں” کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک میڈیا مہم چلائی جائے اور ورکروں اور ان کے آجروں دونوں کو ان کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ملازمت کے معاہدے آجروں کے بجائے وزارت محنت کے ساتھ کیے جانے چاہئیں اور کفیلوں کے نظام کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔