اگر آپ نے مختلف نیوز چینلز پر این اے 122 کے ضمنی انتخاب کی کوریج دیکھی ہے. تو آپ بڑے اطمینان سے بتا سکتے ہیں کہ کس چینل نے کون سی سیاسی پارٹی سے پیسے پکڑے ہوئے ہیں. اگر آپ کچھ زیادہ توجہ دیں تو یہ اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ کون سا اینکر کس کے "پے رول” پر ہے.
ہاں طریقہ کار ذرا مختلف ہو سکتا ہے. نئے اور غیر معروف اینکر کو بہت کھل کر سائیڈ لینے کی صورت میں ہی کچھ رقم ہاتھ آتی ہے. البتہ "ٹاپ ریٹینگ” والے اینکر ایک آدھ جملے یا بین السطور بات کرنے پر ہی لاکھوں کروڑوں ہتھیا لیتے ہیں. عین یہی حال نیوز چینلز کا بھی ہوتا ہے.
یہ نہ تو صرف پاکستانی میڈیا کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ ہی الیکشن کی کوریج کے ساتھ. سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر کا نیوز میڈیا ایسے ہی کرتا ہے. اشتہارات کے علاوہ میڈیا کا یہ دوسرا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہوتا ہے. البتہ چینل یا اخبار جس قدر مقبول اور معاشی طور پر مستحکم ہوگا, وہ بڑی رقم کے عوض معمولی سی لائن لے گا. یوں اُس پر جانبداری کا دھبہ بھی نہیں لگتا اور اُس کی کریڈبیلٹی بھی برقرار رہتی ہے. اس کے برعکس چھوٹے چینل کو "گاہک” کے لیے بھانپو بننا پڑتا ہے.
میڈیا کے گاہکوں میں حکومتیں, حکومتی ادارے, سیاسی پارٹیاں, سماجی شخصیات, این جی اوز, غیرملکی سفارتخانے اور کثیر القومی کاروباری ادارے سبھی شامل ہوتے ہیں. حکومتیں میڈیا کو اپنی غیر مقبول پالیسیوں کے لئے لابنگ کرواتی ہیں. حکومتی ادارے اپنی ساکھ اور شہرت میں اضافے کے لئے اور کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لئے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں.
صرف ایک مثال دیکھ لیجیے کہ آج سے کچھ سال پہلے تک پاکستان میں بوتل بند پانی یا منرل واٹر کا وجود نہیں تھا. ڈاکٹر حضرات لوگوں کو پانی اُبال کر استعمال کا مشورہ دیا کرتے تھے. پھر جب یہاں کچھ کمپنیوں نے منرل واٹر کی لانچنگ کا فیصلہ کیا تو اُسے مارکیٹ میں لانے سے پہلے بہت تگڑی رقم لگا کر میڈیا اور این جی اوز کے ذریعے صاف پانی کے فوائد اور آلودہ پانی کے مضمرات کے بارے میں ایک طویل مہم چلائی گی. پھر منرل واٹر کے اشتہارات شروع ہوئے. اور آج ہر فرد کے ہاتھوں میں پانی کی بوتل نظر آتی ہے.
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے مہیا کیے جانے والے افکار اور تناظر کی جگالی کرنے سے پہلے آگاہ ہو جائیے کہ آپ کے دماغ کو کنٹرول کرنے کی قیمت کوئی پہلے وصول کر چکا ہے.