سردار ایاز صادق صاحب آپ جیت چکے ہیں‘ آپ کو این اے 122 سے چوتھی مرتبہ ایم این اے بننا مبارک ہو‘ آپ پچھلے تین دن سے کامیابی کے ڈھول پیٹ رہے ہیں‘ یہ بھی آپ کا حق ہے‘ آپ اب اگر اپنے اس حق کی دھم دھم سے مطمئن ہو گئے ہوں تو میں آپ کی شان میں ایک گستاخی کر لوں؟ میں آپ سے چند سوالوں کی جسارت کر لوں؟ آپ کی بہت مہربانی‘ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
سردار صاحب آپ نے ابھی تازہ تازہ اپنے حلقے کا دورہ کیا‘ آپ ابھی تازہ تازہ اپنی اس محبوب عوام کے گھروں سے واپس آئے ہیں جس نے چوتھی بار آپ کو عزت دی‘ جنھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کی تاریخ کے حساس ترین موڑ پر آپ‘ آپ کے قائد اور آپ کی جماعت کی عزت رکھ لی‘یہ لوگ اگر 11 اکتوبر کو آپ پر مہربانی نہ کرتے‘ یہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتے تو آپ لوگ اس وقت لاہور شہر میں نکلنے کے قابل نہ ہوتے‘ یہ این اے 122 کے لوگوں کی مہربانی اور کھلا دل ہے جس کے صدقے آپ آج کامیابی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔
جن کی مہربانی سے آپ دوبارہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بن رہے ہیں اور آپ کے ساتھی وزراء منہ پر بند مٹھی رکھ کر اورُرُڑ کی آوازیں نکال رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے جناب اسپیکر! آپ کے حلقے کے ان لوگوں کو اس محبت‘ اس فراخ دلی اور اس اعلیٰ ظرفی کا کیا انعام ملا؟ ان لوگوں کو آپ کے چار مرتبہ ایم این اے بننے اور دوبار اسپیکر منتخب ہونے کا کیا فائدہ ہوا؟
آپ ووٹ مانگنے کے لیے گھر گھر‘ گلی گلی گئے‘ آپ نے اپنے حلقے کے لوگوں کی صورتحال دیکھی چنانچہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا آپ کے حلقے کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے‘ کیا حلقے میں سیوریج کا سسٹم ٹھیک ہے‘ کیا علاقے کی گلیاں صاف ہیں‘ کیا نالیاں پکی ہیں‘ کیا پانی بدبودار اور بیماریوں سے پاک ہے‘ کیا آپ اپنے گھر کی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں‘ کیا آپ کے حلقے کے تمام اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں مکمل ہیں۔
کیا استاد پورے ہیں‘ کیا آپ کے حلقے کے لوگوں کو ڈاکٹرز‘ نرسز اور ادویات کی سہولت دستیاب ہے‘ کیا پورے حلقے میں سینیٹری ورکرز موجود ہیں‘ کیا تھانے ٹھیک ہیں‘ کیا آپ کے تھانے میں آپ کی سفارش اور ٹیلی فون کے بغیر ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے‘ کیا آپ کے حلقے میں جرائم نہیں ہوتے‘ کیا آپ کے حلقے میں لوگوں کو باعزت روزگار مل رہا ہے اور کیا آپ کے حلقے میں میرٹ‘ انصاف اور قانون کی پابندی ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر آپ بے شک اگلے دو تین برس تک خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ جشن کس بات کا؟ آپ یہ مٹھائیاں کیوں تقسیم کر رہے ہیں؟ جناب اسپیکر! کہیں آپ عوام کو چوتھی مرتبہ بے وقوف بنانے پر تو خوش نہیں ہیں؟ کہیں آپ چوتھی بار اپنا اُلو سیدھا ہونے پر تو شاداں نہیں ہیں؟
جناب ایاز صادق صاحب آپ جس دن ان سوالوں کا جواب تلاش کر لیں گے‘ آپ کو اس دن اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا ’’میری چار کامیابیوں کا میرے لوگوں‘ میرے عوام کو کیا فائدہ ہوا‘‘ آپ یقین کیجیے جناب ایاز صادق صاحب! آپ کے حلقے سے لوگ 1890ء سے حکمران بنتے اور تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوتے آ رہے ہیں اور آپ بھی بہت جلد ان لوگوں کا حصہ بننے والے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ بھی ماضی کے چالاک حکمرانوں کی طرح عوام کی خواہشوں‘ عوام کی ضرورتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں چنانچہ آپ میں اور ماضی کے سیاسی مزاروں میں کوئی فرق نہیں‘ عوام آپ سے پہلے بھی محروم تھے اور عوام آج بھی محروم ہیں۔
لوگ پہلے بھی محرومیوں کی درخواستیں جیب میں ڈال کر عوام کے نمائندوں کے پیچھے دوڑتے تھے اور عوام آج بھی پاؤں میں ضرورتوں کے تنور باندھ کر آپ جیسے لوگوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘ ان بے چارے بے بس لوگوں کو کل کوئی مسیحا ملا اور نہ ہی آج کسی نے ان کے دکھ‘ ان کے درد پر ہاتھ رکھا‘ یہ بے بس لوگ آپ جیسے لوگوں کے اقتدار کی بھٹی کے ایندھن کے سوا کچھ نہیں ہیں‘ آپ آج انھیں بھٹی میں ڈال کر اسپیکر کا کیک بنا لیجیے اور کل آپ جیسا کوئی دوسرا آپ جیسے نعرے‘ لارے اور لپے لگا کر ان کی خواہشوں‘ ان کی ضرورتوں سے اپنی بھٹی گرم کر لے گا اور بس۔
بات رہی پی پی 147 سے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار محسن لطیف کی ناکامی کی تو پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ سیٹ خاندانی سیاست کی نذر ہو گئی‘ محسن لطیف کی ناکامی نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خاندانوں کے اختلافات کھول کر سامنے رکھ دیے‘ یہ اختلافات کیا ہیں؟ آپ یہ جاننے کے لیے محسن لطیف کا بیک گراؤنڈ جان لیجیے‘ محسن لطیف میاں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے بھائی میاں لطیف کے صاحبزادے ہیں۔
میاں لطیف کی بیگم اور محسن لطیف کی والدہ میاں برادران کے تایا میاں عبدالعزیز کی صاحبزادی ہیں‘ میاں عبدالعزیز میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کے بھائی اور اتفاق گروپ کے پارٹنر تھے‘ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جب میاں برادران گرفتار ہوئے اور بیگم کلثوم نواز نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک شروع کی تو پورے خاندان میں محسن لطیف اور پوری مسلم لیگ ن میں جاوید ہاشمی دو واحد لوگ تھے جنھوں نے کھل کر ان کا ساتھ دیا‘ محسن لطیف اس پورے دور میں اپنی پھوپھی کے ساتھ رہے‘ میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کو آج بھی محسن لطیف کی قربانی اور ساتھ کا احساس ہے‘ یہ آج بھی دونوں کے قریب ہیں‘ محسن لطیف پی پی 147 سے دو بار ایم پی اے منتخب ہوئے‘ یہ 2008ء میں ایم پی اے بنے‘ دوسری بار 2013ء میں جیتے لیکن یہ 11 اکتوبر کو ضمنی الیکشن میں ہار گئے‘ کیوں؟ اور کیسے؟
اس کی وجہ خاندانی سیاست اور میاں برادران کے اندرونی سیاسی اختلافات ہیں‘ میاں یوسف عزیز محسن لطیف کے سگے ماموں ہیں‘ یہ محسن لطیف کے والد میاں لطیف کے سالے اور والدہ شہناز لطیف کے بھائی ہیں‘ میاں یوسف عزیز میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہنوئی بھی ہیں‘ محسن لطیف کی والدہ شہناز لطیف کا اپنے بھائی اور میاں برادران کے بہنوئی میاں یوسف عزیز کے ساتھ جائیداد کا جھگڑا چل رہا ہے‘ معاملہ عدالتوں تک جا پہنچا ہے۔
اس معاملے نے خاندان کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا‘ میاں نواز شریف اور کلثوم نواز کا جھکاؤ میاں لطیف‘ شہناز لطیف اور محسن لطیف کی طرف ہے جب کہ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے میاں یوسف عزیز کے ساتھ ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ میاں شہباز شریف کے خاندان کا میاں یوسف عزیز کے ساتھ ایک دوسرا تعلق بھی ہے اور یہ تعلق پہلے تعلق کو مزید مضبوط بناتا ہے‘ حمزہ شہباز شریف پنجاب میں حلقوں کی سیاست کے انچارج ہیں‘ یہ خاندان میں محسن لطیف کے مخالف دھڑے کے ساتھ ہیں چنانچہ خاندان کی اس لڑائی کا نقصان محسن لطیف کے حلقے کے لوگوں کو پہنچنا شروع ہو گیا۔
اڑھائی برسوں میں پی پی 147 میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا‘ محسن لطیف کو اسٹریٹ لائیٹس کے خراب بلب تبدیل کرانے کے لیے بھی حمزہ شہباز سے رابطہ کرنا پڑتا تھا اور رابطے کے باوجود بلب تبدیل نہیں ہوتے تھے‘ یہ حلقے کے لیے جو بھی کام لے کر جاتے تھے وہ نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ محسن لطیف نے عوام سے چھپنا شروع کر دیا‘ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے این اے 122 اور پی پی 147 میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو حمزہ شہباز محسن لطیف کے بجائے یہ ٹکٹ حافظ نعمان کو دینا چاہتے تھے‘ حافظ نعمان پی پی 148 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے تگڑے امیدوار ہیں۔
2013ء میں ن لیگ نے ان کی جگہ اختر رسول کو ٹکٹ دے دیا تھا‘ حمزہ شہباز شریف اس بار انھیں پی پی 147 سے الیکشن لڑانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نہیں مانے‘ ن لیگ کے لاہوری گروپ نے سردار ایاز صادق کو یہ حلقہ اپنے صاحبزادے کے حوالے کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن یہ بھی نہ مانے اور یوں یہ ٹکٹ مجبوری کے عالم میں محسن لطیف ہی کو مل گیا مگر محسن لطیف کا ہارنا طے ہو چکا تھا اور یہ ہارے اور یہ شاید اب سیاست میں واپس بھی نہ آ سکیں کیونکہ حمزہ شہباز 2018ء کے الیکشنوں تک مزید مضبوط ہو جائیں گے اور یہ پی پی 147 کا ٹکٹ سردار ایاز صادق کے صاحبزادے کو دے دیں گے لیکن اپنے خاندانی حریف پر مہربانی نہیں کریں گے چنانچہ آپ اگر سردار ایاز صادق کی این اے 122 میں پرفارمنس دیکھیں اور پی پی 147 میں خاندانی سیاست کا تجزیہ کریں تو آپ دونوں جگہوں پر کف افسوس ملنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستان کے سیاسی حکمران طبقے کا سب سے بڑا ایشو تاریخ ناشناسی ہے‘ یہ لوگ پڑھتے نہیں ہیں چنانچہ یہ اپنی ساٹھ ستر سال کی زندگی کو آفاقی سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں قدرت ان کی غلام ہے اور یہ کبھی ان کی چھت پر سورج غروب نہیں ہونے دے گی‘ کاش یہ لوگ کبھی لاہور کی تاریخ کی کتاب ہی پکڑ کر شاہی قلعے سے قطب الدین ایبک اور ایاز کے مزارات تک کا چکر لگا لیں‘ یہ راجہ رنجیت سنگھ کے دور ہی کا مطالعہ کر لیں تو یہ اپنی زندگی اور اقتدار دونوں کی اوقات سے آگاہ ہو جائیں گے۔
یہ جان لیں گے لاہور اگر اپنے بانی لاہو اور محمود غزنوی کے اس عظیم گورنر ایاز کا نہیں ہوا جس کی وفاداری پر علامہ اقبال جیسے شاعر بھی قلم اٹھانے پر مجبور ہو گئے تھے تو پھر یہ آپ کی جیب میں کتنی دیر رہے گا‘ آپ کتنی دیر اس پر اپنے اقتدار کے جھنڈے لہرا لیں گے؟ تاریخ کا سبق ہے‘ عوام سے جھوٹے وعدے کرنے والے سرداروں کی چالاکیاں اور شہزادوں کی خاندانی لڑائیاں بڑی بڑی سلطنتوں کو نگل جاتی ہیں اور میاں برادران کی سلطنت ان دونوں امراض کا شکار ہو چکی ہے‘ شہزادے بھی آپس میں لڑ رہے ہیں اور سردار بھی عوام سے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں چنانچہ زوال کی دیمک کرسی کے پایوں میں جگہ بناتی جا رہی ہے‘ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پارٹی اندر سے کمزور ہو رہی ہے اور یہ کمزوری کسی نہ کسی دن گلستان جوہر کی پہاڑی کی طرح نیچے آ گرے گی۔
———————————
بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘