ڈاکٹر محمود السامرائی پاکستانی سیٹزن ہے، ان کا سسرال پشاور سے ہے ، خود اسلام آباد میں رہا ئش پذیر ہیں ، انہوں نے اسلامک پالیٹیکس میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ہے ، خالد خواجہ ، کرنل امام اور جنرل حمید گل ان کے گہرے دوست تھے ، احمد شاہ مسعود، برہان الدین ربانی ، حکمتیار، ملا عمر، ڈاکٹر شامزئی اور اسامہ بن لادن کے نہایت قریب رہ چکے ہیں ، پاکستان اور عالم اسلام کی محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، قرآن کریم پڑھے تو وہ پڑھتا ہی چلا جائے اور آپ سنتے ہی چلے جائیں ، اسلامی تاریخ ،جغرافیا،اقوام عالم، قرآن و حدیث کے ساتھ سیرت النبیﷺ اور سیِر صحابہ ؓ میں ان کی دسترس عبقریت کی حد تک ہے، مذکورہ بالا ان کے دوستوں میں سے اکثر دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ہیں ، اب مدینہ یونیورسٹی میں سا مرائی صاحب کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ڈکٹر شیر علی شاہ مرحوم کی وفات پر وہ انتہائی دل گرفتہ ہیں ، بقول ان کے ،مرحوم پاکستان میں اپنا کوئی ثانی چھوڑے بغیر اﷲ کو پیارے ہو گئے، ان کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بتا رہی تھی کہ وہ کتنی عظیم شخصیت تھی ،ڈاکٹر سامرائی نے راقم سے رابطہ کیا،کہ میں کراچی آرہاہوں، وہاں سے گوادر ساتھ چلیں گے ،ہم نے کہا ،عثمانیہ ریسٹورنٹ کراچی میں دو چاردن بعد 317 کالموں پر مشتمل ہماری ای بُک کی تقریبِ رونمائی سحر انصاری صاحب کے زیر صدارت ہے،بس وہ ہوجائے،تو پھر چلیں گے،
علامہ سعید الحسنی اور پیر یاسر عرفات نے سفر کے انتظامات کئے ، کراچی سے گوادر تک کو سٹل ہائی وے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پر امن ہے ، جگہ جگہ سمندر سے بغل گیر بھی ہے اگر چہ پہاڑوبیاباں خشک ہیں ،لیکن اگلے پانچ دس سالوں میں پوری پٹی بالخصوص اورماڑا اور پسنی بھی گوادر کی طرح نہایت ترقی یافتہ شہر ہوں گے ، ملک کی معیشت پر مستقبل میں اس علاقے کے اثرات بڑے عمیق اور دور رس نظر آتے ہیں ، اقتصادی کو ریڈور کی وجہ سے بلوچستان کے پس ماندہ شہر تربت پنجگور،ویندر اور لسبیلہ سب ہی کے سہولیات سے آراستہ ہونے کے قوی امکانات ہیں ،گوادر پی سی ہوٹل کا محل وقوع اور اپنے کمرے ہی سے شہر وسمندر دونوں کی طرف کے نظار ے بڑے ہی دل کش ودلپذیرہیں ، شہر کے نئے نقشے ،گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس بحرمیں زلزلہ سے بر آمد شدہ ساحل کے قریب درمیان سمندر میں’’ زلزلہ پہاڑ‘‘ سب دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، لوگ مہمان نوازاور دل کے دہنی ہیں، ڈاکٹر خلیل بلیدی ، مولانا عبد الحمید ،مولانا رشید ،مولانا الیاس ، مولانا ابومعاویہ ،مفتی اختر علی،میجر ارشد اور انجمن تاجران گوادر کے صدر سمیت تمام اراکین دیدہ ودل فرشِ را ہ کئے رہتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ گوادر نہ صرف پاکستان کیلئے بلکہ پورے منطقے کیلئے سونے کی ایک چڑیاہے ،بڑی بڑی مساجد ،مدارس ،سکول اور دیگر سرکاری عمارات وسڑکوں کے منصوبے دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ اب یہاں سنجیدگی سے کچھ ہونے کو ہے،سمندری پانی کو میٹھا کرنے کے پلانٹ کے افتتاح کا بھی امکان بتایاجاتاہے ، جو بالکل تیارہو چکاہے ،جس کے بغیر یہاں آب شیرین کا مسئلہ ہے، گوادر کو انتظامی طور پر فیڈرل حکومت کے ساتھ ملا نے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، یہاں کی بندر گاہ کی گہرائی کی وجہ سے بڑے بڑے بحری جہاز اس پورٹ پر آسانی سے لنگر انداز ہو سکتے ہیں ،ایران کی سرحد جیوانی صرف ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، گوادر کیلئے 100 میگاواٹ کا پلانٹ مکہ سٹی کے درمیان لگ چکاہے، یہ بجلی ایران سے در آمد کی جائیگی ،موجودہ 60میگاواٹ کی پاور یہاں کیلئے اب بھی کم ہے اور آنے والے اوقات میں جب مصرف میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا،تو یہ موجودہ بجلی یقینا کسی کام کی نہیں ہوگی، اس لئے اس میں اضافہ ناگزیرتھا، جو ایک حد تک کیاگیاہے، بندرگاہ پر 16 سے 18 بر تھیں آخری مراحل میں ہیں،کچھ سے امپورٹ کاکام شروع ہو چکاہے، ڈاکٹر راحیل آفریدی کے بقول اس بندرگاہ پر روزانہ تقریباً700 ٹرکوں اور ٹریلروں کی آمد ورفت ہوگی ، مقامی لوگوں کو صرف اگر یہاں کی گودی ہی میں بھر تی کیاجائے، تو ان تمام افراداور ان کے خانوادوں میں خوشحالی کی رونق آجائیگی،اس کے علاوہ یہاں دیگر کاروباری مواقع اور چانسز بھی انگنت ہیں ،ان تمام امور کی انجام دہی میں مرکزی وصوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کا بڑا رول اور کردارہے،
ہم نے اور ڈاکٹر محمود سامرائی نے الگ الگ مساجد میں جمعہ کے خطبوں اور متعدد اجتماعات میں پاکستانیت کے عنوان کو اجاگر کرنے ،باہم قدیم وجدید شہریوں اور لسانی اکائیوں کو مربوط ومتحدرہنے کے متعلق اپنی اپنی گزارشات پیش کیں ،گوادرکاماضی میں عُمان کا حصہ رہنے اور یہاں کے بلوچوں کی خلیجی ممالک میں کچھ زیادہ ہی آمد ورفت کی وجہ سے ہمارے عربی خطبے کو بھی اکثر سامعین سمجھ رہے تھے،جن پربعد ازاں تبصرے بھی ہورہے تھے،بہرحال ایک بات یہاں یہ بھی ہے کہ گھٹن کا ماحول نہیں ہے، جس طرف بھی آپ نکلیں ،دل ودماغ خو شیوں سے معمور اور ایک تازگی محسوس ہوگی، لگتا ہے بڑی دیر کے بعد بلوچستان کے لوگوں کی قسمتیں جاگ اٹھی ہیں، اﷲ کرے یہاں ایمان کی ربانی ہوائیں ہوں، دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح خرافات نہ ہوں،انسانیت اور شرافت کا ماحول یہاں یوں ہی پھلتارہے، پھولتارہے اور پروان چڑھے،
گوادر زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔