ڈاکٹر عاصم کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ، واجد شمس الحسن کو نیب کا نوٹس

ڈاکٹر عاصم حسین کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر کراچی پولیس کے حوالے کر دیا گیا

ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردوں کی معاونت اور غیر قانونی ٹھیکے دینے کا الزام ہے ۔ گرفتاری کے بعد انہیں 90 روز کے لیے رینجرز کے حوالے کیا گیا تھا ۔

ڈاکٹر عاصم حسین کیس کی تحقیقات کے لیے دو جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیمز بنائی گئی تھیں ۔ ایک میں رینجرز اور حساس ادارے شامل تھے جبکہ دوسری ٹیم میں نیب اور رینجرز کے افسران شامل تھے ۔

دونوں ٹیموں نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے وزارت داخلہ کو بھجوا دیں تھیں جس کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین پر تھانہ ناظم آباد میں مقدمہ درج کیا گیا ۔ مقدمے کے بعد پولیس نے ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا ۔ انہوں نے گذشتہ رات تھانہ گلبرگ میں گذاری ۔ صبح انہیں سخت سیکورٹی میں عدالت پہنچایا گیا ۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو ڈاکٹر عاصم کے کیس کی سماعت کی ۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رینجرز نے 4روزہ ریمانڈ پر پراسیکیوٹرجنرل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عاصم حسین پردہشت گردوں کےعلاج اور بدعنوانی کے الزامات ہیں،وہ 4روز کا ریمانڈ کیسے مانگ رہے ہیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رینجرز نے مزید کہا کہپراسیکویٹرجنرل شہادت اعوان اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتے، پولیس اور رینجرز نے 14روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی ،جسے پراسیکیوٹر جنرل نے تبدیل کیا۔

قبل ازیں پیپلزپارٹی کے سابق وزیر ڈاکٹر عاصم کو گلبرگ تھانے سے انتہائی سخت سیکیورٹی میں سندھ ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

پیپلزپارٹی کے سابق وزیر ڈاکٹر عاصم کی نظر بندی کی90روزہ نظر بندی مکمل ہونے پر رینجرز حکام کی مدعیت میں ان کے خلاف نارتھ ناظم آباد تھانے میں مقدمہ نمبر 197/15 سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا, جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے نجی اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا۔

ڈاکٹر عاصم کو 26اگست کو ہائیر ایجوکیشن کے دفتر سے گرفتار کیا گیاتھا۔گرفتاری کے وقت ڈاکٹرعاصم ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے متعلق اجلاس میں شریک تھے۔

عدالت میں رینجرز کے اسپیشل پراسکیوٹر نے کہا کہ پراسکیوٹر جنرل شہادت اعوان ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس میں پیش نہیں ہو سکتے ۔ اس پر شہادت اعوان نے کہا کہ وہ پراسکیوٹر جنرل ہیں اور کسی بھی کیس میں پیش ہو سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کل رینجرز والے مجھے بھی گرفتار کر لیں کہ ” میں ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس میں کیوں پیش ہوا "

ڈاکٹر عاصم حسین کے وکیل عامر رضا نقوی نے کہا کہ عدالت ڈاکٹر عاصم حسین کو انصاف فراہم کرے ۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ "عاصم حسین ڈاکٹر ہیں ، انہیں کیا معلوم کہ علاج کے لیے آنے والا دہشت گرد ہے ”

عامر رضا نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر ٹھیکے دینے کا الزام غلط ہے ۔

پولیس نے ڈاکٹر عاصم حیسن کا 14 روزہ ریمانڈ مانگا تاہم عدالت نے چار روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ رینجرز وکلا کے مطابق ریمانڈ 14 روزہ تھا جسے تفتیشی افسر نے دباؤ میں آکر 4 روزہ کر دیا ۔

پیشی کے بعد ڈاکٹر عاصم کو واپس تھانہ گلبرگ پہنچا دیا گیا ہے ۔

ڈاکٹر عاصم حسین کی بیٹی اور اہلیہ نے بھی ان سے عدالت کے احاطے میں ملاقات کی ، اس موقع پر وہ آبدیدہ ہو گئیں ۔

ادھر پاکستان کے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو بھی نیب نے انکوائری کے لیے دوسرا نوٹس جاری کر دیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ یک دسمبر کو نیب کے راولپنڈی دفتر میں حاضر ہوں ، ان پر مقررہ بجٹ سے زیادہ رقم خرچ کر نے کا الزام ہے ۔

واجد شمس الحسن نے ان الزامات کے دفاع میں کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں کسی قسم کی کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور تمام امور سفارت خانے کے آڈٹ اینڈ اکاونٹس افسر کی نظر سے گذرتے تھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے