مُلحد کا سوال! خدا کو کس نے بنایا؟ (۱)

(خدائی سرگوشیاں سے اقتباسات)

کیونکہ ہم طبعئی ماحول میں رہتے ہیں تو ہمارا طرز فکربھی طبعئی عوامل سے منسلک ہوتا ہے اور ہماری سوچ بھی عموماً طبعئی بنیادوں پر ہی استوار ہوتی ہے۔ خدا کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ہمارا ذہن اسی ذہنی ساخت میں رہتا ہے۔ اور خدا کو بھی محض ایک طبعئی نقطہ نظر from Physical point of viewسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ایک بنیادی غلطی ہے کہ ہم خدا کو بھی اس طبعئی وجود پر مبنی ماحول کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ غلط نقطۂ نظر نہ صرف عوام بلکہ خواص یعنی مفکّرین اور جدید سائنسدانوں کوبھی انہی پیمانوں پر سوچتے ہوئے کنفیوژن کا شکار کر رہا ہے۔خدا کے حوالے سے بحث منکرین اوریقین کرنے والوں میں صدیوں سے جاری ہے۔ کائنات اور زندگی کی انتہائی پیچیدہ سائنس کو خودکار قرار دینے سے متعلّق جدید سائنس کے نقطۂ نظر پر تنقید سے زچ ہوکر منکرین صرف ایک ہی جوابی سوال کوپناہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ اگر سب کچھ خدا نے بنایا تواسکو کس نے بنایا؟ یہ سوال آپکو ہر فورم پر جگمگاتا ملے گا اور اسی پر آکر بحث ختم ہوجاتی ہے۔
It is reasonable to ask who or what created the universe, but if the answer is God, then the question has merely been deflected to that of Who created God. In this view it is accepted that some entity exists that need no creator, and that entity is God……
Stephen Hawking, The Grand Design, Page 216.
یہ پوچھنا مناسب ہے کہ کائنات کو کس نے بنایا ، لیکن اگر جواب خدا ہے تو یہ سوال مزید دوسرے سوال کی طرف جاتا ہے کہ خدا کو کس نے بنایا۔ اس نقطۂ نظر میں یہ مانا جاتا ہے کہ کوئی ہستی ایسی ہے جسے تخلیق کرنے کی ضرورت نہیں اور وہ خدا ہے۔ (اسٹیون ہاکنگ)

رچرڈ ڈاکنز Delusion The God میں رقم طراز ہیں:
Indeed designe is not a real alternativeat at all because it raises a bigger problem than it solves. Who designed the designer?
Page 147, ‘The God Delusion’ Rchard Dawkins
بے شک (کائنات کی) تزئین مناسب متبادل (نظریہ) بالکل نہیں ہے کیونکہ یہ بجائے حل کے اور بڑی مشکل کھڑی کرتا ہے کہ تزئین کار یا ڈیزائنر کو کس نے ڈیزائن کیا۔(رچرڈ ڈاکنز)
یہی وہ اہم موڑ ہے جہاں سے منکرین کسی بھی بحث سے نکل کر اپنے نامکمل نظریے پر ہی بات چیت کو مجبوری گردانتے ہیں۔ جبکہ اسی نکتے کی وضاحت اور تشریح میں ہی سارے مسائل کے حل ہیں۔ صرف کہکشاں میں تقریباً ۳۰۰ ارب ستارے ہیں اگر انمیں ۱۰ فیصد بھی سیّارے ہوں تو ۳۰ ارب سیارے مزید ہوئے۔ کائنات میں ایسی ۱۰۰ ارب کہکشائیں ہیں۔ اب ذرا ان سسٹم کا اندازہ لگائیں جو زندگی کی بے شمارشکلوں میں جاری و ساری ہیںیہ کھرب ہا کھرب طبعئی اور غیر طبعئی نظام ہائے کائنات کسی نظم کے بغیر کیسے ہیں جبکہ ہر ایک کی ساخت ہی نظم پر ہے۔ اور سب سے بڑی بات ان یکساں نظاموں کا آفاقی ہونا ہے۔ کائنات کے ایک دوردراز گوشے میں بھی ایٹم میں الیکٹرون electron اسی طرح کیوں گردش کرتا ہے جیسے یہاں۔
وجود: Existence
منکرین کے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہم وجود اور خیالات کے پیرایوں parameters کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔درحقیقت ہم اپنے حواس میں مقیّد ہوتے ہیں جو کہ وجود کے تابع ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہمارے حواس وجود کے اندر مقیّدہیں اور وجود کی وجہ ہی سے ہمارا شعور بیدار ہے۔ جو بات غور طلب ہے وہ یہ کہ کسی چیز کا وجود دراصل ہمارے شعور کا احساس ہے۔ گویا ہم شعور کے ایک نامعلوم بھنور میں گھومتے ہوئے ذی حیات ہیں جو صرف وجودیت کے پیرائے میں سوچنے اور عمل کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں اوراس وجود کے طبعئی ماحول یا اس شعور کے بھنور سے باہریا وجود کے قفس سے باہر کا ہمیں علم نہیں ہوسکتا۔ اس مقیّد شعوری اور طبعئی ماحول سے باہر جو کچھ بھی ہو وہ ناممکن نہیں بلکہ ایک Meta-Existence-Phenomenon سپروجود یت یا ماورا ء الوجود ہے۔ وہ سپر ماحول جیسا بھی ہوگا اپنے انوکھے پیرامیٹر کے ساتھ ہوگا۔انسانی عقل انسان اور کائنات کی ابتدا ء کی ماہیت کے حوالے سے ہمیشہ تذبذب میں ہی ہے۔ ہمارے پاس اس ماحول کے حوالے سے ممکنہ سوالات اور انکے جوابات ہونے تو چاہئیں لیکن جہاں جدید علوم بھی بے بس بھٹک رہے ہوں وہاں یہی قرینِ قیاس ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ہماری عقل کی پہنچ سے آگے ضرور ہے ۔
وجودکے رخ یا سمتیں: Dimensions of Existence
وجود کیا ہے اور کیا اسکی مختلف سمتیں یا پیرائے ہو سکتے ہیں؟
کیا جو کچھ موجود ہے وہی حقیقت ہے یا حقیقتیں کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں؟
ہمارے احساس کے حوالے سے دو نظام چلتے ہیں ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔ ان دونوں کی مجموعی کارکردگی ہی سے ہمیں کوئی مخصوص احساس ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارا دیکھنا ,کہ جب روشنی سات رنگوں کے ساتھ کسی چیز سے ٹکراتی ہے وہ کچھ رنگ چھوڑ کر پلٹتی ہے اور ہماری آنکھ میں داخل ہوکر پردے میں جذب ہوتی ہے یہاں سے اندرونی نظام کے ذریعے بصری اعصاب کوئی تصویردماغ تک لیجاتے ہیں۔ روشنی گلاب سے ٹکراکر سرخ رنگ لاتی ہے لیکن اگراندرونی نظام سرخ کو نیلا کردے تو ہمیں سرخ چیز نیلی ہی نظر آئیگی! گویا اگر تمام انسانوں کا بصری یا دیکھنے کا نظام ایسا ہی ہو تو پھر سب کو گلاب نیلا نظر آئیگا اور ہمارے لیئے یہی حقیقت ہوگی جبکہ ہمارے حواس سے باہر کے پیرائے کچھ اور ہونگے۔ بالکل اسی طرح کوئی بھی وجود درحقیقت ایک سہہ رخی طبعئی ہیولا
‘Physical Hologram’ Three Dimentionalہے جو ہمارے اعصاب ایک نظام کے تحت تشکیل دیتے ہیں اور یہ نظام اپنے مخصوص پیرائے میں ہر انسان کے اندر جاگزیں ہے۔ ہم انہیں پیرایوں میں سمجھتے ہیں جومتعیّن ہیں۔ ہمارا تصورِ وجود یا کسی چیز کے موجود ہونے کا احساس ایک محدود صلاحیّت ہے جس کا تعلق ہمارے اندرونی نظام سے ہے۔ جس طرح بصری اعصابی نظام حقیقی سرخ کو سبز یا نیلا دکھا سکتا ہے اُسی طرح ہمارا تخیّل و تفکّر کا اندرونی نظام موجود ہونے to existکی ایک مخصوص اور غیر حقیقی کیفیت بھی دکھلاسکتا ہے یا دکھلاتا ہے کہ جس میں ہم مگن رہتے ہیں۔ کوئی اور طرزِ وجود ہمارے لیئے سمجھنا تو مشکل ہو سکتا ہے لیکن کسی اجنبی alien پیرائے وجود کو مسترد کرنا

بھی غیر عقلی اور غیر منطقی ہوگا۔ دراصل ہماری روح میں موجود نامعلوم برتر سائنسی پیچیدہ نظام Para-scientific Super Mechanism اور ہمارے اعصاب ہمارے اندر ایک انتہائی زبردست تخیّلاتی نظم تشکیل دیئے رہتے ہیں جو ہمیں وجود کے ایک مخصوص طرزِ فکر میں غلطاں اور مگن رکھتے ہیں اور ہم وجود کے ایک سحر انگیز نظام میں سرگرداں رہتے ہیں۔اس روحی نظام کہ ہم جان نہیں پائے ہیں کہ خود روح کا علم بھی ایک راز ہے۔
طبعئی وجود کے علاوہ کچھ اور مابعدالطبعیّاتی وجود ہیں جن کا ہم میں اکثر لوگ اپنے تجربات کے تئیں مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ مثلاً جنّات وغیرہ کا تذکرہ اکثر لو گ کرتے ہیں اور بہت سے افراد اس کا ذاتی مشاہدہ بھی کر چکے ہیں، مزید یہ کہ اب جدید سائنسداں بھی بعیدخلاء میں غیرانسانی اجنبی زندگی کی موجودگی کو رد نہیں کرتے،جدید دور کا بڑا سائنسداں اِسٹیون ہاکنگ کہتا ہے۔
"To my mathematical brain, the numbers alone make thinking about aliens perfectly rational,” he said. "The real challenge is to work out what aliens might actually be like.”
http://www.brainyquote.com/quotes/quotes/s/stephenhaw627084.html
میرا حسابی دماغ کہتا ہے یہ اعداد سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اجنبی زندگی کے وجود کا خیال مکمّل عقلی ہے۔اصل میں تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟
یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ ۔۔اصل میں تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ ۔۔۔ ،
ہم عموماًکسی بھی زندگی کا تصوراپنے حواسِ خمسہ کے پیرائے میں ہی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا لازماً کیوں ہو کہ کائنات کے مختلف گوشوں میں ارتقاء کی حوالے سے اُبھرنے والی ہر زندگی کی ماہیت ہماری ہیئتِ ترکیبی کے مطابق ہو! اُنکے حواس و شعور ہماری طرح ہی ہوں۔

اگرسائنس کسی اجنبی زندگی کے وجود کو تسلیم کرتی ہے یا اسے بعید از قیاس نہیں سمجھتی توپھر وہ زندگی صرف ہمارے شعور کے طابع اورمقامی یا محدود ہی کیوں ہو۔ وہ ماوراءِ کائناتی پیرائے میں لامحدودیت تک سرائیت کیوں نہ کرسکتی ہو۔ اس طرح سائنس بالواسطہ اور منطقی طور پر کائنات سے ماوراء زندگی سے انکار نہیں کرسکتی ہے!

اس سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جاسکتا ہے کچھ نہ کچھ تو غیب میں ہے ورنہ اس کا تذکرہ بھی کبھی نہ ہو۔ گویا اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے حوا س سے ماوراء کوئی وجود ی پیرایہ ہے ہی نہیں تو یہ بھی ایک غیر سائنسی،غیر عقلی اور غیر منطقی بات ہوگی۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ کوئی ایسا ماحول ہوجہاں پر وجود ہی اجنبی ہو۔ یعنی کوئی اور اجنبی ماحول جس کی تمام جہتیں ،پیرائے یا پیرامیٹرز ہی ہمارے شعور کیلئے اجنبی یا ماوراءِ شعورِانسانی Para-Human-Conciousness-Parameters ہوں! خیال رہے کہ یہاں پر لفظ موجود اور وجود ہمارے وجود اور وقت کے پیرائے میں ہے، دراصل یہ ہمارے محدود شعورکے اندرہماری محدود لغت میں ایک ایسے ماحول کا ذکر ہے جو کہ ہمارے لیے اجنبی ہو سکتا ہے۔یعنی ہم لامحدودیت سے آگے عدم میں کسی بھی چیز یا غیر چیزیا لا شئے کے بارے میں صرف اتنا ہی بیان کر سکتے ہیں۔

شعور کے مدارج تو ہم خود بھی دیکھتے ہیں کہ ایک بچّہ کس طرح تجربات اور حصولِ علم کے ساتھ پختہ سنِ شعور کو پہنچتا ہے۔تو ظاہر ہوا کہ جب تک انسان علوم حاصل کرتا رہے گا اسکا شعور اورعقل بھی پھیلتی رہے گی۔تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ ہم کیا جان پائیں گے

اور کیا نہیں!اگر انسان آئندہ کچھ ایسا جان پایا یا اسپر ایسی حقیقتیں عیاں ہوئیں جو فی الحال ناممکن نظر آتی ہیں تو کیا ہمارے طبعئی پیمانے یہی رہیں گے! یا اگر انسان اپنے اندر کچھ نئی قوّتیں ڈھونڈھ لیتا ہے جو شعور کو دوچند کردے توکیا پھر بھی ہمارے موجودہ قابلِ قبول معیارِ حقیقت یہی رہیں گے؟ ذرا سوچیں!
(خدائی سرگوشیاں سے اقتباس)
\

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے