خدا کو کس نے بنایا؟ ایک سائنسی رُخ

شعور کے خوگرانسان کے لیئے خدا کا وجود ہمیشہ ایک معمّہ ہی رہا ہے اور ہر دور میں علم، منطق اور عقل کی روشنی میں خدا کو جاننے کی کاوشیں جاری رہی ہیں۔آیئے! اسی عقل، منطق ، علم اور سائنس کی دریافتوں کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن خدا کے وجود کا پیرایا سمجھنے سے پہلے وجود کی ماہیّت سمجھنا ضروری ہے کہ وجود یت خود کیا ہے!

وجودکا قفس : Cage of Existence
انسان اور اسکی عقل وشعورکا موجود ہونا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ انسان جب کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خدا کے وجود پر غور کرتا ہے تو اسکی عقل اس لیئے معطّل ہوجاتی ہے کہ وہ وجودیت کے پیرائے کو اپنے شعور میں ایک فطری اور سختی سے پیوست تائثر کے پرتو ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ انسان طبعئی وجودیت میں قید ہے او اپنے محدود شعور کے با وصف وجود کے حوالے سے اسی طبعئی وجودیت کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ یہی ایسی بھول بھلیّاں ہے جس میں انسان صدیوں سے گھوم رہا ہے اور نکل نہیں پا رہا۔ جدید علوم اور نئی دریافتوں نے اس مخمصے میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت آشنائی کے لیئے اب کسی اچھوتی سوچ کی ضرورت ہے جو اس طبعئی وجودیت کے قفس کے قفل کو توڑدے جس میں انسانی تخیّل مقیّد ہے اور ایک عقلی اور شفّاف نقطۂ نظر سے کائنات، وجودیت اور خدا کو جانیں۔ اسکے لیئے سائنسی طریقہ کار اپنانا ہوگا کہ مفروضات hypothesis کا سہارا لیکر علم اورعقل کی کسوٹی پر انکوپرکھاجائے۔ آئیں ہم غور کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
کیا وجود یت اورزندگی خود بھی مخلوق ہیں؟

زندگی کی ساخت: Fabric of Life
وجود زندگی سے ہے اور زندگی کی ساخت ایٹم اور خلیے سے ہے۔ایک نکتہ یہ بھی مدِّ نظر رہے کہ ہر عنصر کی اکائی( ایٹم) ایک پس پردہ فطرت اور جبلّت کی خوگر ہوتی ہے۔آکسیجن اگر آگ جلاتی ہے تو کاربن اسے بجھاتی ہے۔ یہ ان کی جبلّت ہے۔ سائنس اسے خاصیّت یا propertyکہتی ہے۔ کسی بھی عنصر کی کارکردگی اسکی جبلّت کے طابع اور متعیّن حدود میں ہی ہوگی۔ منطقی طور پرکسی بھی زندگی کی حواسی اور شعوری صلاحیّت اس کو پروان چڑھانے والے بنیادی عوامل کی جبلّت کے رنگ میں ہی عیاں ہوگی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اگر زندگی فوٹون سے ابھرتی ہے تو کیونکہ فوٹون غیر مرئی ہے اور اس کی جبلّت بے قراری ہے یعنی یہ ایک سیماب صفت اکائی ہے جو بہت رفتار سے چلتی ہے تو اس سے متعّلق زندگی بھی غیر مرئی اور برق سے زیادہ تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عناصر اورکائناتی قوّتوں کی اکائیاں بھی اپنی جدا خاصیّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔

خلوی زندگی:Cellular Life
سائنسی دریافتیں بتاتی ہیں کہ وجود میں آنے کے بعدکائنات رفتہ رفتہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی پھر ایک وقت میں زمین پر حالات ایسے سازگار ہوئے کہ پانی میں ایٹم سے بنے خلیے سے زندگی پھوٹ پڑی جس میں طویل ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بقول سائنسداں انسان اپنے شعور کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔

سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک فعّال اور بے چین معمّہ یا "چیز” ہے جو اپنے آپ کو خاص ماحول میں عیاں کرنے کی جبلّت رکھتی ہے۔ زندگی ایک آزاداور کھلا راز ہے جو ہر طرح کے ماحول میں ابھرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر مرئی سچّائی اور وقوعہ Phenomenon ہے جو موجود ہے۔
سائنس کے مطابق کائنات ایٹم سے بنی اور زندگی خَلیےcellمیں شعور ہے۔
تو پھر شعور کیا ہے؟
شعور احساسِ زندگی ہے مگر سائنس کے مطابق شعور زندگی کی پہیلی کا ایک حصہ اور غیر حل شدہ عُقدہ ہے۔
اب سوال اٹھتے ہیں کہ:
کیا حیات صرف خلیات ہی میں محصورہے؟
کیا حیات صرف اور صرف پانی سے ہی ابھر سکتی ہے؟

اجنبی حرارتی اورمقناطیسی زندگی:Alien Thermal & Magnetic Life
اب ایک دوسرا رخ بھی دیکھئے۔سائنس کے نظریئے کے مطابق کائنات بگ بینگ سے وجود میں آئی ۔ اس نظریئے کا سادہ سا تجزیہ کریں توظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتدائی وقت میں نہ صرف توانائی اور قوّتیں موجود تھیں بلکہ ہر طرح کے مادّے، اجرام فلکی اور ہر طرح کی حیات اور فطری قوانین بھی آپس میں ضم تھے۔ شروع میں ہر طرف آگ تھی جو ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اورجوں جوں کائنات پھیلی تو رفتہ رفتہ تمام چیزیں عیاں ہوتی گئیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دوران زندگی کی سچّائی بھی ایک غیر مرئی صورت میں موجود رہی ہوگی اور مختلف ادوار میں قدرتاً مختلف صورتوں میں عیاں ہو ئی ہوگی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح عناصر خلیات بناتے ہیں اسی طرح کچھ مخصوص پارٹیکل یا قوّتیں ملکر ایسی چیز بناتے ہوں جس میں ایک بالکل جدا پیرائے کی حیات اور شعور ابھرتے یا ظاہر ہوتے ہوں ! پانی سے پہلے کیا زندگی توانائی ، قوّت اور حرارت کے پیرائے جیسے روشنی یا ثقل سے پیدا ہوکر کسی اجنبی شعور کے ساتھ ارتقاء پذیر نہ ہوئی ہوگی؟ ہم کس منطق یا علم کے تحت ایسی حیات کو مسترد کریں گے جو شاید کائنات کے کسی گوشے میں موجود بھی ہو۔

سوال یہ ہے کہ: ایسا کیوں نہیں ہوا ہوگا؟

کیونکہ زندگی موجودہ دور میں بھی زمین پر آتش فشانی ماحول میں ایک اچھوتے پیرائے میں خود کو ظاہر کررہی ہے لہذٰا ثابت ہوتا ہے کہ زندگی میں خود کو آتشی ماحول میں عیاں کرنے کی قوّت ہمیشہ سے موجود ہے ۔ ہماری زمین پر ہی سمندر کی گہرائی میں آتش فشانی وینٹ میں حالیہ دریافت شدہ ٹیوب وارم جو سورج کی روشنی کے بغیر زندہ ہیں اور توانائی حاصل کرنے کے لیئے کیمیکل پر انحصار کرتے ہیں ایک عجوبہ ہیں۔ یہ شعاعِ ترکیبیphotosynthesis کے بجائے کیمیا ترکیبی Chemosynthesisسے توانائی حاصل کرتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گو کہ دونوں طریقوں میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی استعمال ہوتے ہیں لیکن کیمیا ترکیبی میں آکسیجن کے بجائے سلفر خارج ہوتی ہے۔
Instead of photosynthesis, vent ecosystems derive their energy from chemicals in a process called "chemosynthesis.” Both methods involve an energy source (1), carbon dioxide (2), and water to produce sugars (3). Photosynthesis gives off oxygen gas as a byproduct, while chemosynthesis produces sulfur.
http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2001/ast13apr_1/
اس سے ہمارے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات میں حرارت اور روشنی سے مختلف حیات کاعیاں ہونا بعید از قیاس نہیں کیونکہ اِس وقت زمین پر معتدل حالات میں بھی مذکورہ بالا زندگی کاایک نئی طرزمیں ظاہر ہونا زندگی کی اپنی طاقتور اور ہمہ جہت جبلّت اور وصف کا مظہر ہے۔ یعنی زندگی کا وقوعہof Life Phenomenon مختلف ماحولیات میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ گویا یہ کثیر الجہتdimensional Multi ہے۔ ایک منطقی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگر زندگی کی جہتیں ایک سے زیادہ ہونگی تو وجود کی ماہیّت بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ کیونکہ انکی آفرینش کے جبلّی پیرائے غیر طبعئی اورعام انسانی حواس سے ماورا ہونگے لہذٰا اس بنیاد پر پیدا ہونے والی زندگی بھی اپنے وجود کے حوالے سے انسان کے لیئے نہ صرف غیر مرئی ہوگی بلکہ انسانی حواس سے ماورا ہوگی۔ جیسے ثقل، مقناطیس، روشنی سے منسلک زندگی نامعلوم پیرایوں میں موجود ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے اپنے وجودی پیرائے میں زندہ ہونگی اور اپنے اپنے شعوری اور عقلی دائرے میں علمی ارتقاء کی طرف گامزن بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی انسان ہی اپنے علم کے تئیں کائناتی زندگی کی ابتدا کوپانی تک محدود سمجھتا رہا ہے جبکہ حقیقت اسکے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔

مشترک اور مختلف جبلّت : Common & Diverse Intrinsic
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ زندگی کے لیئے مانوس ماحول ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پیدا ہوا تو اور دوسرے عناصر کے ملاپ سے کیوں نہ پیدا ہوا۔اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دو عناصر ایک ایسی چیز بناتے ہیں جس کی جبلّت سے زندگی کی مختلف جہتوں میں سے کوئی ایک جہت مانوس یا ہم آہنگ Compatable ہے جس کی وجہ سے حیوانی زندگی پانی میں نمودار ہوئی۔ ہم اس لیئے اس زندگی کو بآسانی پہچانتے ہیں کہ زندگی اورہمارے ذہن ودماغ ایک ہی مشترک خلوی منبع cellular origin سے ابھریں ہیں اور یہ فطری اور جبلّی طور پرآپس میں ہم آہنگ ہیں ۔ اسی طرح جب تخلیقی جبلّت مختلف ہوگی تو کسی غیر عنصر یا توانائی وحرارت سے متعلّق زندگی کا ادراک جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہمارے ذہن اور حواس سے ماوراء ہوگا اور وہ ہمارے لیئے معدوم اور "بے وجود ” ہی رہے گی۔ اسکا منطقی اور اصولی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نامعلوم پیرائے کی زندگی ہمارے لیئے طبعئی طور پر معدوم رہے گی۔

شعورکی قسمیں : Forms of Conciousness
اسی کرّۂ ارض پر خلیات پر مبنی حیات جانور، پرند، حشرات الارض ،درختوں اور پھولوں کی شکل میں بھی موجود ہے جو شعور کے حامل ہیں اور جوڑے pairs بھی رکھتے ہیں ، گویا خلوی حیات کے کئی متوازی نظام ہمارے سامنے رواں دواں ہیں مگر اس کے باوجودابھی انسان انکے شعور اور آپس کے روابط کی حقیقت نہیں جان پایا جس سے انسان کی کم علمی بھی عیاں ہے۔ ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور کی لا تعداد قسمیں ہمارے سامنے ہیں تو غیر خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور اوروجود بعید از قیاس کیسے ہو سکتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے انسان کیوں کسی اجنبی پیرائے کی حیات کی تصدیق نہیں کرپاتا؟

وجود کا دائمی ذہنی ادراک: Constant Mental Perception of Existense
اگر زندگی کسی توانائی مثلاً فوٹون Photonسے آشکارہ ہو تو کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ:
اسکے شعور کے پیرا میٹر کیا ہونگے؟ اسکے حواس کس طرز کے ہونگے؟ اسکی قوّتوں کے پیرائے کیا ہونگے؟
اُس طرزِحیات کے ارتقاء کے مراحل کیسے ہونگے اور اسکی عقل اگر ہوئی تواسکی ماہیّت کیا ہوگی؟
یقیناًہم یہ نہیں جان سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود کے حوالے سے ہمارے تصوّر اور تخیّل کے پیرائے ہماری اساس یعنی خلوی حیات cellular lifeسے نتھی یا منسلک ہیں ،ہمارے ذہن میں وجود کا متعیّن ادراک فطری طور پر طبعئی ہے۔ ہم کبھی بھی کسی اجنبی وجودیت یا اجنبی زندگی کے حقیقی پیرائے Alien Life Parameters کو اپنے تخیّل کے فطری خلوی پیرائے Cellular Thought Parameters Naturalمیں رہتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے ، کیونکہ یہ آپس میں مانوس اور ہم آہنگ compatible نہیں ہیں۔ اسی اساسی خلوی جبلّت کے پرتوہمارے ذہن میں وجود یت ایک خاص طبعئی پیرائے میں اس سختی سے ثبت ہے کہ یہ ادراک perception اب ایک جنّیاتی ورثے Genetic Heritageکی طرح ہر خاص و عام کا مستقل ذہنی وصف بن چکا ہے۔ تمام انسان بشمول اسکالر اور سائنسداں اپنے اطراف کے پُر اثر طبعئی ماحول کے پیدائشی اور مستقل اسیر ہوتے ہیں اوروجود اور عمل سے منسلک خیالات اور احساسات بھی خلوی شعور کے زیرِ اثر ایک خاص طبعئی تائثر کے آفاقی دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ اسی لیئے ہمارے لیئے کسی اجنبی پیرائے میں زندگی کا وجود ذہناً ناقابل قبول ہو جاتاہے۔ اپنے شعور اور عقل کے با وصف ہم یہ نتیجہ تو اخذ کرسکتے ہیں کہ زندگی مختلف نہج Dimensionsمیں ظاہر ہوسکتی ہے یا ہوئی ہے لیکن جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے کیونکہ ہم اپنے تجربات، عقل اور علم کی روشنی میں کسی غیر خلوی حیات کی نمو پذیری کی تصدیق نہیں کر پاتے اسی لیئے ہم اسکو اپنی عقل کے پرتو مسترد کرتے رہے ہیں۔
خلوی شعور کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ آگ سے ابھرنے والی زندگی اور اسکے شعوری پیرائے آتشی اور برقی جبلّت سے آشکارا زندگی کا شعور بھی برقی شعور ہی کہلائے گاکیونکہ اسکی اساس برق ہوگی جبکہ روشنی کے پیرامیٹر کی زندگی کا شعور شُعاعی شعور ہوگا۔ ایسی کسی حیات یا وجود کی طبعئی یا سائنسی تصدیق فی الوقت ممکن نہیں بلکہ انکی قبولیت ایمانیات اور عقائدکے زیر اثر ہی ہوسکتی ہے ۔

وجودیت کے پیرائے : Parameters of Existence
اس بحث سے صرف یہ اخذ کرنا تھا کہ ہم جسے وجود کہتے ہیں وہ ایک مخصوص احساس یا تائثرہے جو ہم کوکسی ایسی ہستی یاچیز کا ادراک دیتا ہے جسکا تعلّق کسی یکساں،مختلف یا منفردحیات سے ہوسکتاہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کائنات میں موجود مختلف عناصر اور توانائیوں میں حیات کے ابھرنے کے مواقع منطقی بنیاد پر دور از کار نہیں۔ گویا وجود مختلف دائروں میں مختلف جہتوں میں جلوہ گر ہوسکتا ہے۔ اسطرح وجود کے ایک دائرے میں رہائش پذیر حیات دوسرے دائرے کی حیات سے جدا خصوصیت کی حامل ہوگی۔ ان کا آپس میں ربط انکے بنیادی اجزاء کی باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہوگا۔
ہم نے ابھی یہ سمجھا کہ موجود ہونے کے بہت سے پیرائے یا رنگ ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف دائروں میں عیاں ہو سکتے ہیں۔ کائنات اور خود انسانی تمدّن میں جاری نظم ایک آفاقی حقیقت ہے اس کے بموجب یہ قیاس کرنا منطقی ہوگا کہ وجود یا موجود ہونے کے کائناتی نظام پر حاوی کوئی نظام ہوسکتا ہے جو وجودیت کو مختلف پیرائے اور رنگ دینے کی صلاحیّت رکھتا ہو ورنہ مختلف طبعئی حیات کا ہونا غیر حقیقی ہو جائے گا۔ اب اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ حیات یانظم یا قوّت، جس نے وجود کے دائرے تخلیق کیئے جس میں انسان ایک ذہنی قید خانے میں ہے ، تمام موجود کائناتی حیات سے انتہائی جدااور برتر ہوگی ۔ جب ہم ایک وائرلیس ریموٹ کے ذریعے بہت دور سے کسی مشین کو کنٹرول کرتے ہیں تو بظاہر کوئی واسطہ نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت وہ مشین ایک نہ نظر آنے والے نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ ایک لا علم کے لیئے یہ ایک عجوبہ یا Baffleہوگا جبکہ جاننے والوں کے لیئے یہ ایک مربوط نظام ہے۔بالکل اسی طرح انسان ا طراف میں مخفی نظام ہائے کائنات کی ہیّت سمجھنے میں مشغول تو ہے لیکن مکمّل نظم System کو ابھی تک سمجھنے سے قاصر اور حقیقی کائناتی نظام سے بہت حد تک لاعلم ایک مخلوق ہے ۔ مختصراً ،اگر کائنات ایک تخلیق ہے تو اس میں موجود زندگی بھی ایک تخلیق ہی ہے اور انسان کے شعور کے بموجب وجودیت بھی ایک غیر مرئی مخلوق ہوئی الّا یہ کہ جدید علوم عملی طورپر Practically یہ ثابت کردیں کہ عدم سے وجود یا نیست سے ہست things from nothing خود بخود کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اچانک تخلیق spontaneous creation کو جدید سائنسداں اور اسکالر زندگی اور شعور کو عجوبہ اور حیران کن ہی قرار دیتے ہیں۔

وجودِ خدا کی حقیقت: Reality of Existence of God
وجود ایک ذہنی تائثر ہے جس کی وجہ سے ہم موجود ہونے کو ہی وجود گردانتے ہیں کیونکہ ہماری نمو پذیری شعور کے احساسِ وجود میں ہوتی ہے۔ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ نظام تخلیق کردیا جس میں موجودہونے کا شعور ہی زندگی کہلایا۔ ہمارا خلوی شعور وجود کا ایک فطری طبعئی تاٗثر ہمارے ذہن میں تخلیق کیئے رہتا ہے۔ انسان خدا کو سمجھنے کی کوشش وجود اور عدم وجود یا حاضر اور غائب کے اُنہی طبعئی پیرایوں میں کرتا ہے جو خلوی شعور کے بموجب مستقل فطری تاٗثر بن چکے ہیں۔ یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا تجسّس میں اسی فطری تائثر سے اٹھتا ہے اور انسان خدا کو بھی اپنی طرح کی زندگی اور وجودکا خوگر سمجھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا ہے جو کہ خداکے حوالے سے ایک غیر حقیقی تصوّر illusionہے۔ خدا یقیناً ایک زندہ ہستی ہے لیکن اس ہستی کا پیرایہ کیا ہوگا اُسکو انسان اپنی عقل کی خلوی ساخت Cellular Based Wisdomکی وجہ سے سمجھنے کا مکلّف ہی نہیں ہے۔
دیکھیئے بجلی یا برق Electric کی ساخت کی بھی ایک جبلّت ہے جس کو قابو کر کے انسان نے کمپیوٹر اور روبوٹ بناکر انکو مصنوعی زندگی اور مصنوعی عقل دی۔جس طرح انسان کے تخلیق کردہ الیکٹرانک ماحول میں مقیّد کوئی سپر روبوٹ بھی اپنی برقی Electronic جبلّت کی محدودیت اور نامانوس جبلّی ساخت کی وجہ سے خلوی زندگی Cellular lifeکے پیرائے نہیں سمجھ سکتا بلکہ اسکی رمق تک نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح انسان خدا کو طبعئی اور خلوی پیرایوں میں مقیّدرہ کرشاید کبھی نہ سمجھ پائے۔ ریڈار ایک مصنوعی "حواس” کا خوگر نظام ہے کہ اس سے خارج ہونے والے سگنل کسی جسم سے ٹکرا کر اسکا الیکٹرونک تاٗثر لیکر واپس آتے ہیں اور اسکی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اسٹیلتھ تکنیک Stealth Technology اسکو غیر موٗثر کردیتی ہے۔یعنی اگر چار جہاز اُڑتے آرہے ہیں اور ان میں ایک اسٹیلتھ ساخت کا ہے تو ریڈار صرف تین جہاز دکھائے گا۔ اسٹیلتھ نظام سے آراستہ کوئی جسم اسکو نظر نہیں آئیگا۔ گویا جہاز، ایک ٹھوس جسم کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے لیکن ایک مقیّدماحول یعنی ریڈار کے کنٹرول روم ، یعنی کسی خاص پیرائے میں موجود سے معدوم ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال انسان کے حواس اور تخیّلات کے بموجب خدا کے وجود کی ہے کہ انسان سب کچھ دیکھ سکتا لیکن خدا کو نہیں کیونکہ کائنات کا ماحول اسی ریڈار کے کنٹرول روم کی طرح ہے جس میں انسان اپنے حواس کے طابع ہر چیز کا شعور حاصل کرسکتا ہے جبکہ خدا کسی نامعلوم اسٹیلتھ جیسے پیرائے میں رہ کر ہر چیز پر حاوی ہے۔! اگر خدا اس طبعئی ماحول سے کسی ایسے پیرائے میں بھی منسلک ہوتا جسکا فی الوقت انسان کو علم ہے توانسان اب تک خدا کے وجود کا پیرایہ جاننے کی طرف پیش قدمی کر چکا ہوتا۔ در حقیقت میٹافزکس جوں جوں فزکس میں ضم ہوتی رہے گی خداکو سائنسی طور پر قبول کرنے کے مواقع اتنے ہی بڑھیں گے۔

منکرین کے مخمصے : Confusion of Nonbelievers
الحاد دراصل کائنات اور وجود کی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں سوچتے ہوئے انسانی ذہن کا مخمصہ ہے اور بس! کیونکہ کوئی بھی بڑے سے بڑا منکرِ خدا خواہ وہ کوئی عظیم اسکالر یاسائنسدان ہی کیوں نہ ہو آج بھی کائنات اور زندگی کیے عجوبے کی تشریح خدا کو خارج کر کے نہیں کرسکا۔ ان کے پاس نہ زندگی اور شعور کی سائنسی وضاحت ہے اور نہ ہی انسانی جذبات و خیالات کے اجراء کی توضیح ہے۔ علم، عقل اور منطق کے سہارے سائنسی نظریات کا دفاع کرتے ہوئے جہاں بے بس ہوجاتے ہیں تو کچھ اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایک حیران کن مسٹری ہے جس کا پتہ کبھی چل جائے گا۔سائنس کی محدودیت اس بات سے ہی عیاں ہے کہ یہ صرف ان سوالات کا جواب دیتی ہے جوکیا اور کیسے سے شروع ہوتے ہیں اور بہت سے انتہائی ضروری ” کیوں ” سے شروع ہونے والے سوالات کا جواب نہیں دی سکتی بلکہ لفظ کیوں اس کی لغت سے ہی خارج ہے۔
سائنس آج بھی جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتی ان میں سے چند یہ ہیں۔
کائنات عدم سے خود بخود کیسے ظاہر ہوئی؟ کائنات کیوں بنی؟
بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کائنات میں ہر جگہ ایک نظم کیسے ہے؟ اور کیوں ہے؟
زمین کے ہر گوشے میں پیدا ہونے والی زندگی اپنے گروپ میںیکساں اور آفاقی جبلّت کیوں رکھتی ہے؟
بے پایاں علوم بھی کیا بگ بینگ سے قبل موجود تھے؟ انکا منبع کیا ہے؟
زندگی کیا ہے اور کیوں ہے؟ شعور کیا ہے اور کیوں ہے؟
اچھے برے خیالات کا اجراء کہاں سے اور کیوں ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
جدید علوم خدا کا متبادل پیش کرنے میں کھلے ناکام ہیں اسی لیئے ہراسکالر، فلاسفراور ہر دہریہ کسی بھی مباحثے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ملے گا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اپنی محدودیت کی وجہ سے انسان کی صرف خادم بن سکتی ہے رہنمانہیں۔
ان گزارشات سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ خدا کے ناقدعقلی ، منطقی اور سائنسی طور پرکسی حد تک یہ جان چکے ہونگے کہ موجودہ فزیکل پیرایوں میں یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا غیر متعلّق Irrelevant ہو جاتاہے۔ اس کے بجائے جو سوالات ابھرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
انسان کیوں ہے؟ کیسے بنا ؟ کس نے بنایا؟……………………..
ذرا سوچئے!
( خدائی سرگوشیاں سے ماخوذ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے