بلوچستان رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور اپنے محل وقوع، جغرافیائی اہمیت، قدرتی و معدنی وسائل اور ثقافتی حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسکے باوجود اس پورے صوبے کی اہمیت لاہور کے کینال روڈ سے بھی کم ہے جہاں درخت گرنے سے روڈ بلاک ہو جائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے مگر بلوچستان بھر میں روزانہ ایسے کئی واقعات پیش آتے ہیں کہ جن کی رپورٹنگ کی جگہ اخباروں کی سرخیاں اور رات 9 بجے کے بلیٹن کی پہلی خبرہونی چاہیے تھی۔ مگر کوئی پرسانِ حال نہیں، کوئی ایسا سال نہیں کہ جب بلوچستان کے لوگوں کو ترقیاتی بجٹ سے اپنی مشکلیں آسان ہوتی نظر آئی ہوں۔ کراچی میں کہیں پانی کھڑا ہو جائے تو سارا دن ہر چینل پہ اس مسئلے پر بات ہوتی ہے، بلوچستان میں کئی جگہوں پہ پانی نہیں ملتا پر اس مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ لاہور کے انارکلی بازار میں سلنڈر پھٹ جائے تو ایسی خبریں چلتی ہیں کہ سن کے کلیجہ پھٹ جائے مگر بلوچستان میں آئے روز بم دھماکوں سے کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
اس قدر قدرتی و معدنی وسائل رکھنے کے باوجود اس خطّے کے لوگ غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور770کلومیٹر طویل ساحلی پٹّی کے حامل اس خطّے کے لوگوں کی زندگی میں خوش حالی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جغرافیائی اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی منصوبے "سی پیک” کی ریڑھ کی ہڈی درحقیقت گوادر یعنی بلوچستان ہی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ عوامی فلاح و بہبود کو پسِ پشت رکھتے ہوئے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی مفاد کی خاطر اس پراجیکٹ سے صرف اپنا "حصہ” لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
کس سے جا کر شکوہ کریں؟ کس سے گزارش کریں؟ کسے اپنے دل کا حال کہیں جب اپنے ہی صوبے کے رہنما جو خود کو بلوچستان کی ترقی کا ضامن کہلواتے ہیں وہ ہی عوام کے لیے مختص ترقیاتی بجٹ میں غبن کر رہے ہیں۔ 1995ء میں ایک "نیشنل منرل پالیسی” کا نام سنا تھا جسے مشرف دور ِحکومت میں کام شروع کیا گیا تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کو ترغیب مل سکے، کیونکہ بلوچستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، خام لوہا اور ماربل (اونیکس) ماربل (آرڈینری) کرومائیٹ، بیرائیٹ، لائم اسٹون، گرینائیٹ سمیت 20دیگر قیمتی معدنیات کے علاوہ تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود کوئی خیر کی خبر بلوچستان کے نام سے نہیں آ رہی۔
سیاستدانوں کے ذاتی مفاد کے علاوہ ایک اور وجہ سرکاری عملے کی کرپشن بھی ہے۔ بلوچستان میں پانچ صوبائی سیکریٹریز نے نیب کے ساتھ الگ الگ پلی بارگین معاہدات کیے، اور کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کروائے۔ بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم عبدالسلیم درانی نے 2001 میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کیا، اور کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے تقریباً دو کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروائے ۔جب ایک قوم پرست سیکریٹری خزانہ بلوچستان کو گرفتار کیا تو انکے گھر سے 73 کروڑ روپے کے نوٹ، 4 کروڑ روپے کا سونا، پرائز بانڈ، سیونگ سرٹیفکیٹس، ڈالر اور پاؤنڈز کی گڈیاں اور مختلف جائیدادوں کے کاغذات ملے تھے۔ اتنی بڑی رقم کو گننے میں نیب کے اہلکاروں کو 7 گھنٹے سے زائد کا وقت لگا، پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی کے ساتھ پرائز بانڈ، سیونگ سرٹیفکیٹس گننے کے لیے اسٹیٹ بینک سے مشینیں بھی منگوائی گئی تھیں۔1997 کا وہ واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جب ایک قوم پرست سینیٹر اور اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ کا بھائی 2 ملین ڈالر کے ساتھ کراچی ائرپورٹ پر پکڑا گیا۔ یہ سب پیسہ کس کا تھا؟ یہ بلوچستان کے عوام کا پیسہ تھا۔ اس پیسے کی بندربانٹ نے صوبے کو پسماندہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ گزشتہ چند سالوں کا احوال ہے، ان 74 سالوں میں نجانے کتنی بار بلوچستان کے خزانے کو لوٹا گیا ہے اور عوام کا حق کھایا ہے۔
ذرا سوچئیے، یہ تو وہ پیسہ ہے جو کرپشن کے واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاری سے سامنے آگیا ہے،کتنا پیسہ تا حال پوشیدہ ہے کوئی نہیں جانتا۔ اگر یہ پیسہ عوامی فلاح و بہبود پہ لگ جاتا تو آج بلوچستان ترقی کی منازل کو طے کرچکا ہوتا ۔ بلوچستان میدان جنگ کی بجائے ایک تجارتی مرکز ہوتا۔ مگر ان تمام مسائل کی جانب توجہ کون دے ؟ بلوچستان کے لیے کون بولے گا ؟ بلوچستان کے عوام کے لیے کوئی ایک آواز جو عوامی امنگوں کی ترجمان ہو؟ کوئی سیاسی جماعت جو زبانی کلامی سیاسی منشور کا ڈھنڈورا نا پیٹتی ہو؟ کبھی جام کمال، کبھی اختر مینگل، کبھی عبدالقدوس بزنجو تو کبھی کوئی ۔۔۔ مگر بلوچ عوام کا دکھ سمجھنے والا کوئی نہیں۔۔۔
بلوچستان کے عوام اب تھک چکے ہیں، انکی آنکھیں کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو ترقیاتی کاموں کو ترجیح دے، جو رواداری اور بھائی چارے کا ماحول قائم رکھے، جو حکومتیں گرانے کی بجائے عوامی مسائل کو حل کرے، جو بلوچستان کو اسکا اصل روپ دے جس میں ثقافتی رنگ ہیں، جینےکے کئی ڈھنگ ہیں ۔ سب کو آزمانے کے بعد بھی بلوچستان کے عوام نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، نا ہی اپناگھر، کیونکہ ایک دن آئے گا جب بلوچستان اپنا حق لے پائے گا۔ کیونکہ یہ خطہ آج بھلے قحط الرجال کا شکار ہو مگر اس سرزمین نے تاریخ میں کئی بار وہ سپوت پیدا کیے ہیں جنہوں نے زمیں کا قرض اتارنے کی آخری حد تک کوشش کی۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں جہاں حکومتی اہلکار لمبی تان کر سوئے تھے وہاں میر شفیق الرحمان مینگل جیسے کئی میسحا بھی موجود تھے جو لوگوں کو سنبھالنے کے لیے جان توڑ محنت کرتے رہے۔ یہ چراغ جلنا شروع ہوئے ہیں، دیر سویر سہی ان کی روشنی پہنچے گی، مسائل بھی حل ہوں گے سی پیک کے ثمرات بھی نچلے طبقے تک پہنچیں گے ، صوبے کو معدنی ذخائر سے پورا پورا حصہ ملے گا اور روزگار بھی بلوچستان کے عوام کو ہی ملے گا۔