مسلم اسپین پر دوبارہ مسیحی قبضے کی سالگرہ، پرتشدد مظاہرے

اسپین کے شہر غرناطہ یا گریناڈا کے پانچ صدیوں سے بھی زائد عرصہ قبل مسلم حکمرانی سے دوبارہ مسیحی قبضے میں آ جانے کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ یادگاری تقریب حریف ہسپانوی مظاہرین کے مابین تصادم کی نذر ہو گئی۔

الحمرا میں مسلم حکمرانوں کے ایک تاریخی محل میں اسلامی دستکاری کا نمونہ

گریناڈا سے اتوار تین جنوری کے روز موصولہ نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق 1492ء میں اس ہسپانوی شہر میں مسلمان حکمرانوں کی فوجی شکست اور اس پر مسیحیوں کے دوبارہ قبضے کی سالگرہ ہر سال منائی جاتی ہے اور اس موقع پر یادگاری جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔

اس تاریخی واقعے کے قریب سوا پانچ سو سال بعد کل ہفتہ دو جنوری کے روز جب یہی سالگرہ منائی جا رہی تھی، تو وہاں انتہائی دائیں بازو کے مظاہرین اور بائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کے مابین تصادم شروع ہو گیا۔

ہسپانوی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے اس دن کو اجانب دشمنی اور موجودہ دور میں اسپین اور یورپ کے مبینہ طور پر اسلامیائے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔

اس دوران دائیں بازو کے ان انتہا پسندوں کی بائیں بازو کے مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ بائیں بازو کے مظاہرین نے صدیوں پہلے کے غرطانہ میں پیش آنے والے واقعات کو بہت جذباتی انداز سے منانے کی اس لیے مذمت کی کہ 15 ویں صدی کے آخر میں مسیحی فوجی دستوں کی اسی کامیابی کے بعد اسپین سے مسلمانوں اور یہودیوں کی جبری بے دخلی کا عمل شروع ہوا تھا۔

1492ء میں کیتھولک بادشاہ فرڈینانڈ اپنی فوج کے ساتھ غرناطہ پر قابض ہو گیا تھا۔ غرناطہ میں اس عسکری کامیابی کے ساتھ ہی اسپین کی مسلم ریاست کے دوبارہ فتح کیے جانے اور مسیحی انتظام میں لیے جانے کا عمل پورا ہو گیا تھا۔ کیتھولک بادشاہ فرڈینانڈ کو ملنے والی فتح سے پہلے اسپین اور غرناطہ پر 700 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی تھی۔

یہ بات بھی تاریخی حقائق کا حصہ ہے کہ 1492ء میں جاری کیے جانے والے الحمرا کے فرمان کے تحت پہلے یہودیوں کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ یا تو اسپین سے چلے جائیں یا پھر اپنا مذہب بدل کر مسیحی عقیدہ اپنا لیں۔ غرناطہ کی فتح کے دس سال بعد کیتھولک حکمرانوں نے اسی شاہی فرمان کا اطلاق ان مسلمانوں پر بھی کر دیا تھا، جو تب تک اسپین میں بچے تھے۔ ان مسلمانوں کو بھی مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ یا تو مسیحی عقیدہ اپنا لیں یا پھر اسپین چھوڑ کر چلے جائیں۔

اسی پس منظر میں غرناطہ کی یورو عرب فاؤنڈیشن نے شہری انتطامیہ کی طرف سے منعقد کردہ یادگاری تقریبات پر تنقید کرتے ہوئے انہیں اجانب دشمنی کی مظہر قرار دیا ہے۔

اس کے برعکس غرناطہ کے آرچ بشپ خاویئر مارٹینیز نے کیتھولک کلیسا کی ایک یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 15 ویں صدی کے ہسپانوی کیتھولک بادشاہوں کے اقدامات کا دفاع کیا۔ آرچ بشپ نے کہا کہ Isabella اور Ferdinand نے ’بہت زیادہ انسانیت پسندانہ‘ رویہ اپنایا تھا۔

گریناڈا کے آرچ بشپ کے بقول غرناطہ اور اسپین کی دوبارہ فتح تاریخ کی ان چند جنگوں میں سے ایک کی مثال ہے، جن میں ’فاتح اور مفتوح بادشاہ ایک ہی میز‘ پر بیٹھے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے