مائے نی میں کنوں آکھاں

انسانی حقوق کسی بھی معاشرے کا بنیادی پہلو ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کا تصور آئین میں شامل ہے اور ان حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ تاہم، ان قانونی تحفظات کے باوجود، ملک بھر میں مختلف صورتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ پاکستان میں جب انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو سب سے اہم مسائل میں سے ایک خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ اور احترام کا فقدان ہے۔ صنفی بنیاد پر تشدد، بشمول عصمت دری، گھریلو تشدد، اور غیرت کے نام پر قتل، کچھ ایسے مسائل ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی ہے۔ پاکستان میں بہت سی خواتین کو سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی تعلیم، ملازمت اور سیاسی سرگرمیوں کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق ایک طویل عرصے سے تشویش اور بحث کا موضوع رہے ہیں۔ اگرچہ ملک نے حالیہ برسوں میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کی طرف پیش رفت کی ہے، لیکن اب بھی اہم چیلنجز موجود ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ خواتین اپنے مکمل حقوق اور آزادی حاصل کر سکیں۔

جب پاکستان میں خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو ان میں سے ایک سب سے اہم مسئلہ صنفی بنیاد پر تشدد ہے۔ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کو اکثر گھریلو تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور دیگر اقسام کے استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں 32 فیصد خواتین کو آج بھی جسمانی نشدد جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، جس میں خواتین کو خاندان کے افراد غیرت یا خود ساختہ روایت کی خلاف ورزی کے سبب قتل کر دیتے ہیں، یہ بھی ملک میں ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اور وڈیرہ شاہی نظام کے باعث ایسے قاتلوں پر ہاتھ ڈالنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان کے علاقے بارکھان میں ایک خاتون قرآن اٹھا کر چیختی رہی کہ میرے نوجوان بچے علاقے کے سردار کے پاس قید ہیں۔ لیکن کسی نے اس کی نہ سنی۔ اور جب ان بچوں اور ایک بچی کی مسخ شدہ لاش ملی تو سوشل میڈیا بھی حرکت میں آیا۔ لیکن اس طرح کے غیر انسانی فعل کو وقت سے پہلے روکنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ تنقید کی غرض سے یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ مسخ شدہ لاش اس خاتون کی بیٹی کی نہیں ہے۔ ہو سکتا کہ یہ لڑکی وہ نہیں جسکا تذکرہ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے، لیکن یہ بیٹی ضرور ہے۔ یہ آپ کی، میری اور پاکستان کی بیٹی ہے جس پر ظلم ہوا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، صرف 2020 میں خواتین کے خلاف تشدد کے 4,800 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں گھریلو تشدد کے 1,000، غیرت کے نام پر قتل کے 338 کیسز، اور جنسی زیادتی کے 148 واقعات شامل ہیں۔

کم عمری کی شادی: پاکستان میں کم عمری کی شادی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔

غیرت کے نام پر قتل: خاندان کے کسی فرد، خآص طور پر خواتین کو قتل کرنے کا رواج بھی پاکستان کے دیہی علاقوں میں عام ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق 2020 میں ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے 1000 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔

تعلیم تک رسائی: اگرچہ حکومتِ پاکستان نے حالیہ برسوں میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں، لیکن اب بھی تعلیم کے شعبے میں ایک نمایاں صنفی فرق موجود ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں صرف 45 فیصد لڑکیاں پرائمری اسکول میں داخل ہیں اور صرف 22 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔

کام کی جگہ پر امتیازی سلوک: پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہ پر بھی نمایاں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ انہیں مردوں سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

یہ اعداد و شمار پاکستان میں خواتین کی صورت حال کی ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہیں، اور خواتین کے حقوق کی ان خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان ایک ایسے معاشرے کے حصول کے قریب جا سکتا ہے جہاں سب کے لیے منصفانہ نظام ہو۔ اسلام اور آئینِ پاکستان نے عورتوں کو وہ تمام انسانی حقوق دیئے ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ اگر عورتوں کے ذمہ کچھ خدمات عائد کیں تو مردوں پر بھی فرائض لاگو کئے گئے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے حقدار ہیں۔ اب اس میں کسی جینڈر، نسل یا رنگ کی شرط نہیں۔ قانون کا نفاذ ہی اس معاشرے میں خواتین کو ان کے حقوق دلا سکتا ہے، اور تشدد کے جرائم میں ملوث مجرمان کو قرار واقعی سزا دے کر گراناز بلوچ جیسی لاتعداد خواتین کو جبر و تشدد سے بچایا سکتا ہے۔

میں سُنیا سی
کڑیاں جیناں پان تے دھرتی کنمبدی اے
پر جِس ویلے
خون دی ہولی کھیڈی جاوے
انساناں نُوں وَڈیا جاوے
وسدے گھر اُجاڑے جاون
ماواں دے پُت مارے جاون
اوس ویلے ایس دھرتی ماں نُوں
نہ ای کوئی کانبا چِھڑدا
نہ آندا بھونچال
یار حکیما ! مظلوماں دا
کِنوں دسیئے حال.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے