آو ہم اس تیرگی کو روشنی میں ڈھال دیں

23 مارچ 1940 کو منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کو مختلف زونز میں تقسیم کیا جائے۔ ہر زون میں مسلم اکثریت والی ریاستوں کے گروپ تشکیل دیے جائیں۔ اور ان گروپس میں شامل ہر ریاست اپنے معاملات میں آزاد اور خود مختار ہوگی۔ اور یہ پہلی دفعہ تھا کہ جب مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے مسلمانوں کے کیلئے ایک الگ اور خود مختار ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔ اس قرارداد کے سات سال بعد اور ہندؤوں کی مخالفت کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں کا ایک الگ ملک "پاکستان” کے نام سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ قرارداد کا نام ‘قراردادپاکستان’ ٹھہرا اور ٢٣ مارچ کو اسی یاد میں یوم پاکستان منایا جاتا ہے۔ ہر سال ملک بھر میں یوم پاکستان ملی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔

مملکت خداداد کی سلامتی کیلئے دعائیں کی جاتی ہیں، وفاقی دارالحکومت میں ٣١ جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں اکیس اکیس توپوں کی سلامی سے اس اہم دن کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مساجد میں نماز فجر کے بعد اس دن ملکی بقا کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ یوم پاکستان کے حوالے سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں وطن سے محبت کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں اور ملی نغمے اور پاک فوج سے محبت کے ترانے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ صبح ٹی وی چینلز پر پاک فوج کی پریڈ دیکھ کر جذبہ ایمانی کو تازگی ملتی ہے اور وطن سے محبت کے سوئے ہوئے جذبے بھی جاگ اٹھتے ہیں۔

مگر جیسے ہی ٢٣ مارچ کا دن گزرتا ہے ہمارے وطن سے محبّت کے تمام جذبے ماند پڑ جاتے ہیں۔ ہم وہی پرانے نفرتوں والے چہرے سامنے لے آتے ہیں۔ ہم صرف اپنے حقوق کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض کیوں ہمیں اگلے ہی لمحے بھول جاتے ہیں؟ ہم سارے وہی کام کرنے لگ جاتے ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلیے ہی ہم نے ایک الگ ملک حاصل کیا تھا، جس کےلیے ہمارے بزرگوں نے اپنے مال، عزت اور جان کی قربانیاں دی تھیں۔ ہم تھوڑے سے لالچ کی خاطر اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہر آنے والے یوم پاکستان پر ہمارا ایمان اورجذبہء حب الوطنی پہلے سے بڑھ کر ہو، اس میں ہر بڑھتے سال کے ساتھ کمی نظر آتی ہے۔ آج ہم نے ٢٣ مارچ کے دن کو محض ایک عام تعطیل سمجھ لیا ہے۔ ہم یہ بھولتے جارہے ہیں کہ اس تاریخی دن کا پس منظر کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ ہمارے آباؤ اجداد نے کتنی جدوجہد اور کتنی محنت سے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس خطے کو حاصل کرنے کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی۔ لوگوں نے اپنے مکانات چھوڑ دیے، ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کردیں، ماؤں کے سامنے ان کے ننھے منے اور معصوم جگر گوشوں کو ذبح کیا گیا۔

یہ سب کس کے لیے کیا گیا تھا؟ یہ ملک کیوں بنایا گیا تھا؟ آج ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی رواداری کی حالت دیکھ کر آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما شرما جائیں گے۔ اور مذہبی ہم آہنگی کی جو فضا ہم نے اپنے پیارے پاکستان میں قائم کر رکھی ہے اس پر بانی پاکستان قائداعظم کے دل پر کیا گزرے گی۔ ہماری نوجوان نسل کی ترجیحات اور مصروفیات ہمیں کس مستقبل کی نوید سنا رہی ہیں؟ کیا آج ہماری ریاست اور قانون ایک عام شہری کی جان و مال کے محافظ ہیں؟ کیا یہ واقعی وہی ملک ہے جسکا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور جس کے حصول کی خاطر محمّد علی جناح نے انتھک محنت کی تھی؟

یہ ملک ایسے نہیں چلنا چاہئے تھا۔ اگر ہمیں یہ سارے حالات بدلنے ہیں تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی اور اپنے وطن سے محبت کو اپنی روح کا حصہ تصور کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے قائدین کا پڑھایا سبق پھر سے دہرانا ہوگا۔ یہ دن تجدید عہد وفا کا دن ہے۔ اس دن کی اہمیت کو سمجھ کر پاکستان سے وفا کا عہد کیجئے اور اس کلمہ کی اہمیت کو سمجھئے جس کلمے کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ آیئے ہم اس یوم پاکستان کے موقع پر عہد کریں کہ قرارداد پاکستان کی روشنی میں مملکت خداداد پاکستان کو پروان چڑھانے کے لئے انفرادی و اجتماعی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم خود سے عہد کریں کہ ہم پاکستان کو اپنے قائد اعظمؒ کے دیے ہوئے رہنما اصولوں کی روشنی میں چلائیں گے اور ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی، فلاحی جمہوری مملکت بنائیں گے۔ ہم اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کریں گے۔ ہم ریاست کے آئین اور قانون پر عمل پیرا ہوں گے۔ ہم ٹیکس چوری نہیں کریں گے۔ ہم ملکی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیں گے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور روشن مستقبل دینے کے لیے جدوجہد کریں گے۔ یہ دن تجدید عہد وفا کا دن ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایسا ملک چھوڑ کر جائیں گے جہاں ہمارے بچے فخر سے اپنا سر بلند رکھ کر دنیا کو یہ بتائیں گے کہ قرارداد پاکستان کیوں ضروری تھی۔

ہم کو یہ شعلے نہیں، چاہت کی شبنم چاہئے
ہم کو یہ خنجر نہیں، زخموں کا مرہم چاہئے
مستقل نفرت کے بدلے ، عشقِ پیہم چاہئے
متحد ہوکر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں
گر سلامت یہ وطن ہے ، تو سلامت ہم بھی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے