’’میںآپ کو بتاتا ہوں کہ لاہورپریس کلب کے سالانہ انتخابات میں برسراقتدارگروپ کیوںہارا؟‘‘
اس نے یہ بات کہہ کر مجھے پوری طرحاپنی طرف متوجہ کرلیا۔ جھریوں سے بھرا چہرہ، بالوں میں نصف سے زائد سفیدی، یہ بندہ بی بلاک کے متاثرین میںسے ایک ہے۔ عشروں کی جرنلزم کرنے کے بعد آج بھی کرائے کے گھر میں رہ رہاہے۔ برسوں پہلے اس کے بہت سے ساتھی صحافی کالونی میں پلاٹ حاصل کرکے گھربناچکے لیکن یہ بے چارہ خالی ہاتھ۔ پہلے پروگریسو کی حکومت اس سے وعدے کرتی رہی اور پھر جرنلسٹ کی حکومت کا وعدے پر وعدہ۔
وہ کہنے لگا کہ’’ جرنلسٹ گروپ نے انتظامات بہت خوب کئے تھے۔ جیت کا ایک بندوبست یہ کیاگیا کہ بی بلاک کے متاثرین کو دسمبر کے آخری عشرے میںیہ کہہ کر حیران کردیاگیا کہ ’’آپ کا کام ہوگیاہے‘‘، ہم واقعی حیران تھے کہ کام کیسے ہوگیا جبکہ ہماری زمینوںپر اب بھی قابضین موجود ہیں۔ عرصہ سات برس سے وعدوں ہی سے بہلائے جانےوالے ایف بلاک متاثرین کوایک بارپھر ’’اگلے سال میںسب کچھ ہوجائے گا‘‘ کا وعدہ کیاگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ ’جرنلسٹ‘ کے کرتا دھرتا شاید سمجھتے تھے کہ وہ بی اور ایف بلاک والوں کو وعدوں کی زنجیروں میں باندھ کر اپنے ساتھ گھسیٹتے ہی رہیںگے‘‘۔
’’سچ کہوں تو بی بلاک اور ایف بلاک کے چارسو سے زائد لوگ گزشتہ تین چاربرس سے حکمرانی کرنے والوں پرسخت غضب ناک تھے، اگرچہ وہ خاموش تھے لیکن ان کا غصہ چہروں سے جھلکتا اور ان کی آنکھوئوں سے چھلکتاتھا۔ وہ ان حکمرانوں کے سامنے پروگریسو سے تعلق رکھنے والے سابق صدر کے بارے میںسخت کلمات کہتے تھے توایک اندازمیں موجودہ حکمرانوں کو وارننگ دیتے تھے کہ جس طرح انھیں کلب سے نکال باہر کیاگیا، ایسے ہی آپ کو بھی کک آئوٹ کیاجائے گا لیکن بدقسمتی سے یہ وارننگ انھیں سمجھ ہی نہیںآرہی تھی۔
’’جرنلسٹ‘‘ قیادت نے بی بلاک متاثرین کے درد کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیںکی، ان کے ساتھی اے، سی، ڈی اور ای بلاک والے گھر بناچکے لیکن بی بلاک والے اب تک آسمان اور زمین کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے بعد ایف بلاک کے لئے زمین بھی حاصل کرلی گئی لیکن بی بلاک والے بے چارے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس کا گلا رندھ گیا اور وہ اپنا جملہ مکمل نہ کرسکا۔ پھر کچھ دیر کے توقف کے بعد بولا:
’’شاید’’جرنلسٹ‘‘ قیادت سمجھتی تھی کہ وہ چھ سو سے زائد نئے ارکان بناکر ایف اور بی بلاک متاثرین کے غیظ وغضب کا مقابلہ کرلے گی۔۔۔ لیکن 30 دسمبر اور 18جنوری کو جرنلسٹس کے انتظامات ایف اوربی بلاک متاثرین کے علاوہ ان لوگوں کی آندھی میں بھی زمین بوس ہوگئے جوچندچہروں کی اقتدارپرستی، لالچ اور ہوس سے شدید بے زار ہوچکے تھے‘‘۔
پھر کہنے لگا:
’’یہ برسراقتدارٹولہ اسی دن ہارگیاتھا جس روز اپنی ہی منظورکرائی ہوئی دستوری ترمیم( کوئی شخص مسلسل تین بار الیکشن نہیںلڑسکے گا) کو کالعدم قراردلا کر چوتھی مرتبہ بھی الیکشن لڑنے کافیصلہ کرلیا تھا‘‘۔